“امریکہ میں تارکین وطن کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا، سڑکیں میدان جنگ بن گئیں!”

امریکہ میں تارکین وطن کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن نے ملک بھر میں احتجاجی لہر کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد شہروں میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ لاس اینجلس میں مظاہرے پُرتشدد رخ اختیار کر گئے جہاں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے حالات قابو میں لانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مظاہروں کے دوران بعض مشتعل افراد نے گاڑیوں کو آگ لگا دی جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان گھنٹوں تک کشیدگی جاری رہی، جس نے شہری زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔
مظاہرین کا مؤقف ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نہ صرف لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن متاثر ہو رہے ہیں بلکہ یہ اقدامات انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ ایک کثیرالثقافتی ملک ہے جہاں نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر تفریق ناقابل قبول ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مظاہروں پر سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے سیکیورٹی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی جائے جو پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں یا امن و امان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
یہ صورت حال امریکی معاشرے میں موجود سیاسی اور سماجی تقسیم کو مزید واضح کر رہی ہے۔ ایک طرف عوام کا بڑا طبقہ حکومت کی سخت پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے، تو دوسری طرف ریاستی مشینری ان اقدامات کو “قانون کی بالادستی” کے لیے ضروری قرار دے رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوامِ متحدہ سمیت، امریکہ سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ تارکین وطن سے متعلق پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور ایسے اقدامات سے گریز کرے جو معاشرتی تقسیم اور نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔