باجوڑ اور ماموند سے ان چاہی ہجرت، ایک ایسا المیہ جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

باجوڑ اور ماموند کے علاقے آج پھر بڑی تعداد میں خاندان اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ یہ ان چاہی ہجرت نہ صرف ان خاندانوں کے لیے شدید تکلیف دہ ہے بلکہ پورے علاقے کی سماجی و معاشی حالت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ جب انسانوں کو اپنی جڑیں چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑے، تو یہ صرف ایک جسمانی سفر نہیں ہوتا بلکہ ایک روحانی و جذباتی بوجھ بھی بنتا ہے۔
بدقسمتی سے انتظامیہ اس سنگین مسئلے کے حل میں نہایت غیر فعال نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ خاندانوں کو کوئی مناسب مدد میسر نہیں ہو پا رہی۔ ایسے میں لوکل رضاکار اور متاثرہ افراد اپنی مدد آپ کے تحت حالات سے نبرد آزما ہیں، مگر یہ کوششیں زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتیں جب تک کہ سرکاری سطح پر موثر اقدامات نہ کیے جائیں۔
ان چاہی ہجرت کے دوران متاثرہ افراد کو نہ صرف اپنے گھروں سے بیدخلی کا سامنا ہے بلکہ بنیادی سہولیات مثلاً خوراک، پانی، صحت کی سہولتوں اور پناہ گزینی کی کمی بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ بچے، بوڑھے اور خواتین خاص طور پر اس صورتحال میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جن کی حفاظت اور مدد حکومت کی ذمہ داری ہے۔
یہ المیہ ہمارے معاشرے کی ایک کڑی حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت، انتظامیہ اور سماجی تنظیموں کو مل کر فوری بنیادوں پر متاثرہ خاندانوں کی بحالی، محفوظ رہائش اور معقول امداد کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طویل مدتی حل کے لیے پائیدار امن اور ترقیاتی پروگرامز کا نفاذ ضروری ہے تاکہ لوگ دوبارہ اپنے علاقوں میں واپس جا کر پرسکون زندگی گزار سکیں۔
باجوڑ اور ماموند کی ہجرت صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس انسانی المیے پر توجہ دیں اور ہر ممکن مدد فراہم کریں تاکہ یہ خاندان دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں اور ایک خوشحال زندگی کی طرف بڑھ سکیں۔