“17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قاتل کا انصاف کے دروازے تک سفر شروع—14 روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل!”

کراچی کی معروف ٹک ٹاک سٹار ثنا یوسف (عمر 17 سال) کے قتل کا مقدمہ درج ہونے کے بعد مقدمے کا مرکزی ملزم گرفتار ہو کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے چودہ روزہ ریمانڈ جاری کرتے ہوئے ملزم کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ پولیس مزید تفتیش اور شواہد اکٹھے کر سکے۔
واقعات کا پسِ منظر:
ثنا یوسف کی لاش (تاریخ تقریباً ایک ہفتہ قبل) کراچی کے علاقے گلشن حدید سے برآمد ہوئی تھی، جس کے بعد پولیس نے واقعے کی رپورٹ درج کی۔
ابتدائی طور پر لاش کے پاس ثنا کی موبائل فون اور ٹک ٹاک ویڈیوز ملی تھیں، جن سے معلوم ہوا کہ وہ ہاسپیٹالیٹی کے شعبے میں نوکری کرتی تھی اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک تھی۔
معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس وقت ہوا جب ثنا کے ورثاء نے دعویٰ کیا کہ قتل سے پہلے ملزم نے دھمکی آمیز پیغامات بھیجے تھے، جن کا تذکرہ تفتیشی ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔
ملزم کی گرفتاری اور قانونی کارروائی:
پولیس انویسٹی گیشن کے مطابق، مقتولہ کے لواحقین نے ابتدائی طور پریرت جنک کالز اور سوشل میڈیا چیٹس فراہم کیں، جن کی مدد سے مطلوبہ ملزم کا پتہ چلا۔
ملزم کو کراچی سے گرفتار کر کے ابتدائی تفتیش کے بعد تھانہ سرجانی ٹاؤن کے حوالات میں رکھا گیا۔ تفتیشی افسران کا کہنا ہے کہ ملزم نے بعض اوقات ثنا کے قریب آ کر دھمکیاں دی تھیں، لیکن مقتولہ نے تحفظ نہ ملنے کا احساس کرتے ہوئے پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔
جب واقعہ کی ویڈیو اور شواہد سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے، تو عوامی دباؤ بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے تفتیش تیز کر دی اور ملزم کو گرفتار کر کے آج (تاریخِ سماعت) کراچی سیشن کورٹ میں پیش کیا۔
عدالتی حکم اور آئندہ لائحہ عمل:
عدالت نے ملزم کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے اڈیالہ جیل راولپنڈی بھیجنے کا حکم دیا، جہاں تفتیشی ٹیم ملزم سے مزید سوالات کرے گی اور تفتیش کو حتمی شکل دی جائے گی۔
پولیس افسران کا کہنا ہے کہ مزید تفتیش کے دوران ڈیجیٹل شواہد، فون ریکارڈ اور آنکھوں دیکھے گواہان کے بیانات شامل کیے جائیں گے تاکہ قاتل کو قانون کے کٹہرے میں سخت سزا دلائی جا سکے۔
ثنا یوسف کے اہلخانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت تیز رفتار ٹرائل کی نگرانی کرے تاکہ انصاف جلد از جلد عمل میں آئے اور قاتل کو قرار واقعی سزا ہو۔
سماجی ردِّ عمل اور تحفظِ خواتین की ضرورت:
سوشل میڈیا پر نوجوانوں نے ثنا کے قاتل کی گرفتاری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے عدالتی کارروائی میں تیزی کا مطالبہ کیا۔
حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے بھی حکومت سے درخواست کی کہ وہ اعداد و شمار اکٹھا کر کے تسلیم کرے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا انفلوںسرز، خصوصاً خواتین ٹین ایجرز پر خطرات بڑھ گئے ہیں اور انہیں بہتر تحفظ کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ تفتیشی نظام اور حفاظت کے انتظامات ہیں، لیکن خاندانی اور تعلیمی اداروں کو بھی شعور بیدار کرنا ہو گا تاکہ ایسے المناک واقعات کو روکا جا سکے۔ثناء یوسف قتل کیس کی گتھی سلجھ گئی ٹک ٹاکر “کاکا” قاتل نکلا — اٹک سے گرفتار، یک طرفہ محبت کا خطرناک انجام