“وقت بیچنے والی خاتون!” — گرین وچ کی حیرت انگیز کہانی

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ “گرین وچ مین ٹائم (GMT)” آخر کس سے منسوب ہے؟ کیا یہ صرف ایک سائنسی اصطلاح ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی دلچسپ انسانی کہانی بھی ہے؟ تو لیجیے! ہم آپ کو ملواتے ہیں مسز گرین وچ سے — ایک ایسی عورت جنہوں نے وقت کو حقیقتاً “بیچا”!

انیسویں صدی کے آغاز میں گھڑیاں عام لوگوں کی پہنچ میں نہیں تھیں۔ اس وقت کے لندن، خاص طور پر گرین وچ قصبے میں، اگر آپ کو وقت جاننا ہوتا تو آپ کو مسز گرین وچ کے پاس جانا پڑتا — اور فیس ادا کرنی پڑتی تھی! وہ اپنی گھڑی دیکھ کر آپ کو وقت بتاتیں، اور اس “خدمت” کے بدلے پیسے لیتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کام انہیں وراثت میں ملا تھا۔ ان کا خاندان نسل در نسل “وقت بتانے” کا پیشہ کرتا آیا تھا۔

یہ “دکان” تقریباً ڈیڑھ صدی تک چلتی رہی اور مسز گرین وچ نے 1943 تک یہ پیشہ جاری رکھا، جب تک کہ گھڑیاں ہر شخص کی کلائی تک نہیں پہنچ گئیں۔ اسی دوران گرین وچ، لندن کا ایک مشہور قصبہ بن گیا، جہاں سے وقت کی پیمائش کا عالمی نظام شروع ہوتا ہے۔ وقت کا حساب اب دنیا بھر میں گرین وچ مین ٹائم (GMT) کے مطابق کیا جاتا ہے، جسے دنیا کا زیرو ٹائم زون سمجھا جاتا ہے۔

دنیا کے مختلف حصوں میں وقت کا حساب GMT سے آگے یا پیچھے کیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں وقت کے سفر کو ایک دلچسپ تفصیل بناتی ہیں، جیسے اسپین اور مراکش میں GMT 00:00 پر وقت ہوتا ہے، تو پاکستان میں GMT+5 کے حساب سے پانچ گھنٹے آگے اور آسٹریلیا میں یہ GMT+10 کی بنیاد پر 10 گھنٹے آگے ہوتا ہے۔

مسز گرین وچ کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقت کی قدر ہمیشہ رہی ہے — بس انداز بدل گیا ہے۔ کبھی لوگ گھڑی دیکھنے کے لیے پیسے دیتے تھے، آج ہم گھڑی دیکھتے ہوئے بھی وقت ضائع کر دیتے ہیں!

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں