غزہ میں بےگناہ بچوں کی شہادت نے دنیا کو ایک بار پھر انسانیت کے زخم دکھا دیے۔

“ایک ماں، ایک مسیحا — جس نے دوسروں کے بچے بچائے، لیکن اپنے 9 لختِ جگر کھو دیے!”
غزہ میں جاری اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس نے عالمی سطح پر شدید تشویش اور مذمت کو جنم دیا ہے۔

ڈاکٹر علاء النجار کے خاندان پر قیامت
خان یونس میں مقیم بچوں کی ماہر ڈاکٹر علاء النجار کے گھر پر 24 مئی 2025 کو اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے 9 بچے شہید ہو گئے۔ ان بچوں کی عمریں 7 ماہ سے 12 سال کے درمیان تھیں اور ان کے نام یحییٰ، راکان، رسلان، جبران، حوا، روان، سیدین، لقمان اور سدرہ تھے۔ حملے کے وقت ڈاکٹر علاء ناصر اسپتال میں زخمی بچوں کا علاج کر رہی تھیں، جبکہ ان کے شوہر، ڈاکٹر حمدی النجار، گھر پر موجود تھے اور شدید زخمی ہو گئے۔ ان کا ایک بیٹا، آدم، بھی زخمی حالت میں بچ گیا ہے۔

اسکول پر حملہ اور دیگر ہلاکتیں
26 مئی 2025 کو غزہ سٹی میں ایک اسکول، جو بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 31 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں کئی بچے بھی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ اسکول حماس اور اسلامی جہاد کے جنگجوؤں کے لیے انٹیلیجنس آپریشنز کا مرکز تھا۔

مجموعی انسانی بحران
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اکتوبر 2023 سے جاری اس جنگ میں اب تک تقریباً 54,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زائد خواتین اور بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 93 فیصد سے زائد غزہ کے بچے قحط کے خطرے سے دوچار ہیں، اور 14,000 سے زائد بچوں کی جانیں فوری خطرے میں ہیں۔

یہ المناک واقعات غزہ میں جاری انسانی بحران کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں بچوں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ عالمی برادری سے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ معصوم جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں