رات کی خاموشی میں چھپا شور: جب خواتین صحافیوں کو رات کی شفٹ میں دھکیلا گیا”

پاکستان میں خواتین پیشہ ورانہ دنیا میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں، دیواریں توڑ رہی ہیں، اور خاموشی کو آواز دے رہی ہیں۔ لیکن کچھ دروازے اب بھی بند ہیں، اور کچھ رویے اب بھی وہی پرانے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ میں وفاقی محتسب انسداد ہراسیت نے وہ آواز بلند کی ہے جسے شاید کئی خواتین برسوں سے دبائے بیٹھی تھیں۔

بات صرف ایک شفٹ کی نہیں، بات ہے اس سوچ کی جو سمجھتی ہے کہ رات کا وقت صرف مردوں کا ہے، اور اگر خواتین اس وقت میں کام کریں تو وہ “ان کا مسئلہ” ہے۔ جب ایک میڈیا ادارے کی انتظامیہ نے خواتین صحافیوں کو بنا کسی جواز کے رات کی شفٹ میں منتقل کیا، تو یہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ تھا بلکہ کھلا ہوا صنفی امتیاز بھی تھا۔

وفاقی محتسب نے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے صنفی تعصب قرار دیا۔ یہ فیصلہ اس بات کا اعتراف ہے کہ خواتین کو محفوظ ماحول میں کام کرنے کا آئینی اور اخلاقی حق حاصل ہے۔ کسی بھی ادارے کو یہ حق نہیں کہ وہ خواتین کو ایسے اوقات میں کام کرنے پر مجبور کرے جہاں اُن کی سیکیورٹی، سہولت یا آرام داؤ پر لگ جائے — خاص طور پر جب محفوظ ٹرانسپورٹ تک دستیاب نہ ہو۔

فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ خواتین کو رات 10 بجے کے بعد کام پر مجبور کرنا درست نہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، متاثرہ خاتون کو 25 ہزار روپے بطور ہرجانہ دینے کا حکم بھی دیا گیا — جو نہ صرف انصاف کی چھوٹی سی جھلک ہے بلکہ ایک مثالی پیغام بھی کہ خواتین کی شکایات کو سنجیدہ لیا جائے گا۔

انتظامیہ کی طرف سے یہ کہنا کہ “خواتین کی واپسی رات 2 بجے ہمارا مسئلہ نہیں” — بذاتِ خود ایک بدنیت سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سوچ یہ بتاتی ہے کہ عورت کو آج بھی کچھ جگہوں پر صرف “کام کرنے والی مشین” سمجھا جاتا ہے، جس کی ضروریات، تحفظ اور احترام غیر ضروری سمجھے جاتے ہیں۔

یہ فیصلہ ان تمام اداروں کے لیے ایک وارننگ ہے کہ “انتظامی تبدیلی” کے پردے میں اگر آپ عورت کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہیں، تو قانون خاموش نہیں بیٹھے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں