“خوبصورتی کی قیمت… جب چہرہ قدرت کا نہیں، قسطوں پر خریدا گیا خواب بن جائے۔”

چین میں تیزی سے بڑھتے ہوئے بیوٹی اسٹینڈرڈز نے خواتین پر خوبصورت نظر آنے کا ایسا دباؤ ڈال دیا ہے کہ اب وہ اپنی آنکھوں، ناک، حتیٰ کہ ہونٹوں کی ساخت بدلوانے کے لیے پلاسٹک سرجری کا سہارا لے رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے لیے چین میں باقاعدہ *بیوٹی لونز* یعنی حسن کے قرضے بھی دیے جا رہے ہیں — بالکل اسی طرح جیسے کوئی موبائل فون یا گاڑی قسطوں پر خریدی جاتی ہے۔
یہ سرجریز صرف جسمانی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک سماجی اور نفسیاتی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے Douyin (چینی ٹک ٹاک) پر ہر روز پرفیکٹ فیس، پتلے ہونٹ، بڑی آنکھیں، نکیلی ناک والی تصویریں اور ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔ ان آئیڈیاز نے خوبصورتی کی ایک “مصنوعی” تعریف طے کر دی ہے، جس تک پہنچنے کے لیے لڑکیاں اپنی اصل شناخت کو پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتی نوجوان لڑکیاں اپنے جیب خرچ یا پارٹ ٹائم آمدنی سے کاسمیٹک لونز لیتی ہیں، تاکہ نوکری، رشتے، یا سوشل میڈیا پر خوداعتمادی حاصل کر سکیں۔ ان کے لیے خوبصورتی صرف پسندیدہ نظر آنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ بقا، کامیابی اور قبولیت کی کنجی بن چکی ہے۔
یہ سوال نہایت اہم ہے: کیا ہم ایسے معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں اصل چہرے کی کوئی قیمت نہیں رہے گی؟ جہاں ہر مسکراہٹ کے پیچھے قرض اور ہر آنکھ کی چمک کے پیچھے ایک سرجری چھپی ہو؟