بلوچستان کی سڑکیں اب سفر کا راستہ نہیں، بلکہ احتجاج، طاقت اور مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں۔

بلوچستان کی سڑکیں جو کبھی محض آمدورفت کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں، اب احتجاج اور ریاستی طاقت کے مظاہروں کا مرکز بن چکی ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرین ہوں، شدت پسند تنظیمیں یا خود حکومت، ہر فریق نے شاہراہوں کو اپنے مؤقف کے اظہار کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ سڑکوں کی بندش اب ایک ایسی حکمتِ عملی بن چکی ہے جس کے ذریعے نہ صرف آواز بلند کی جاتی ہے بلکہ ریاستی نظام کو چیلنج بھی کیا جاتا ہے۔
لیکن اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر وہ عام شہری ہیں جنہیں روزمرہ کے معمولات، تجارت، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاجر برادری کا کہنا ہے کہ ایک دن کی بندش انہیں لاکھوں کا نقصان پہنچاتی ہے، جبکہ مریضوں کو اسپتال لے جانے میں تاخیر ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
ریاستی ادارے ان سڑکوں کو سیکورٹی کی ضرورت کے تحت بند کرتے ہیں، شدت پسند عناصر خوف پھیلانے کے لیے، اور مظاہرین اپنے مطالبات منوانے کے لیے، لیکن نتیجہ ہر بار ایک ہی نکلتا ہے: عام آدمی پس جاتا ہے۔
بی بی سی کے رپورٹر محمد کاظم کی رپورٹ کے مطابق، سڑکوں کی یہ جنگ صرف ایک علامتی احتجاج نہیں رہی بلکہ ایک مستقل بحران میں بدل چکی ہے، جو نہ صرف بلوچستان کی معاشرتی فضا کو متاثر کر رہی ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی کمزور کر رہی ہے۔“بلوچستان ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہونے کو ہے، جب بجٹ میں عوامی ضرورتوں کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں