“بلوچستان کی ناراضگی کی جڑیں صرف وسائل کے استحصال اور سیاسی عدم استحکام میں نہیں، بلکہ عوامی حقوق کی کمزوری میں بھی چھپی ہیں—کیا وقت آ چکا ہے کہ حکومت ان کے حقوق کو تسلیم کرے؟”

بلوچستان میں حالات کی خرابی کی وجوہات اور لوگوں کی ناراضگی کئی مختلف عوامل پر مبنی ہیں، جن پر سینئر صحافیوں سلیم شاہد اور علی شاہ نے کوئٹہ پریس کلب میں اپنی خصوصی گفتگو میں روشنی ڈالی۔ بلوچستان کے عوام کی ناراضگی کے پیچھے کئی سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل ہیں جن کا تذکرہ کرتے ہوئے صحافیوں نے ان عوامل کی وضاحت کی۔

سب سے پہلی وجہ جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ بلوچستان میں ترقی کے امکانات اور وسائل کی کمی نے لوگوں کو مایوس کر دیا ہے۔ یہاں کے وسائل، جیسے کہ قدرتی معدنیات، گیس اور تیل، کے باوجود بلوچستان کو ملک بھر میں وہ ترقی نہیں ملی جس کا حق اسے تھا۔ عوام کا یہ ماننا ہے کہ ان کے وسائل کا استحصال ہو رہا ہے، اور انہیں ان وسائل سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

دوسری بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام اور حکومتی سطح پر بلوچستان کے مسائل کو نظرانداز کرنا ہے۔ اکثر بلوچستان کے مسائل مرکزی حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوتے، اور وہاں کے لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں لیکن ان کی آواز سنی نہیں جاتی۔ یہ صورتحال عوام میں بے چینی اور ناراضگی کو بڑھاتی ہے۔

سوشل سروسز کی کمی، جیسے کہ تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کا فقدان، بھی عوامی ناراضگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بلوچستان میں صحت کے ادارے اور تعلیمی ادارے کافی کمزور ہیں، جو لوگوں کی زندگی کے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔

حل کی بات کی جائے تو سلیم شاہد اور علی شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے صرف حکومت کی طرف سے مزید ترقیاتی منصوبے اور وسائل کی فراہمی ضروری نہیں، بلکہ یہاں کے عوام کو ان کے حقوق کا احساس دلانے اور انہیں ان کے وسائل پر کنٹرول دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے خود مختاری اور نمائندگی کا حق دیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مرکزی حکومت کو بلوچستان کے عوام کی آواز سننی چاہیے اور انہیں ملکی ترقی میں برابر کا شریک بنانا چاہیے۔

اس گفتگو کے دوران صحافیوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف مقامی سطح پر نہیں بلکہ قومی سطح پر بھی ایک جامع حکمت عملی کے تحت ممکن ہے۔ اس کے لیے حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کی بحالی ضروری ہے تاکہ بلوچستان میں دیرپا امن اور ترقی کا راستہ کھل سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں