امتِ مسلمہ کی خاموشی — خون بہتا رہا، لب سلے رہے

جب فلسطین کی سرزمین پر آگ و بارود برستا ہے، جب یمن کی الحدیدہ بندرگاہ راکھ کا ڈھیر بنا دی جاتی ہے، جب شام کی سرزمین پر گونجتے دھماکوں میں انسانیت سسکیاں لیتی ہے، اور جب لبنان کی فضا اسرائیلی طیاروں کی گرج سے لرزتی ہے—تو سوال پیدا ہوتا ہے: کہاں ہے امتِ مسلمہ؟ کہاں ہیں وہ 50 سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل بھی ہے، فوج بھی، دولت بھی، آواز بھی—لیکن غیرت نہیں؟

اسرائیل بیک وقت یمن، شام اور لبنان پر بمباری کرتا ہے، معصوم بچوں کی لاشیں ملبے سے نکالی جاتی ہیں، مائیں اپنے جگر گوشوں کو گود میں لیے رو رہی ہوتی ہیں، اور امتِ مسلمہ صرف مذمتی بیانات جاری کر کے، یا پھر مکمل خاموشی اختیار کر کے اپنی مجرمانہ غفلت کو مزید واضح کرتی ہے۔ کیا ہماری عبادات، دعائیں اور خطبے صرف رسم بن چکے ہیں؟ کیا ہمارے حکمرانوں کا ضمیر صرف اقتصادی معاہدوں اور سیاسی مصلحتوں میں دفن ہو چکا ہے؟

امتِ مسلمہ کے پاس OIC جیسا پلیٹ فارم ہے، جو صرف اجلاس پر اجلاس بلانے تک محدود ہے۔ اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے کی بجائے ہم عالمی طاقتوں کی طرف دیکھتے ہیں، جو خود ظلم کے سرپرست ہیں۔ عرب ممالک جو کبھی فلسطینیوں کے محافظ سمجھے جاتے تھے، آج اسرائیل کے ساتھ اقتصادی و سفارتی تعلقات استوار کر کے یہ پیغام دے چکے ہیں کہ اصولوں سے بڑھ کر مفادات ہیں۔

یاد رکھیے، خاموشی صرف بزدلی نہیں، بلکہ ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہوتی ہے۔ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ مظلوم کا ساتھ دو، اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو فتنے کی آگ ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ آج وہی ہو رہا ہے۔ شام میں جو ہوا، یمن میں جو ہو رہا ہے، فلسطین میں جو ہو رہا ہے، وہ کل ہمارے دروازوں پر دستک دے سکتا ہے۔

امتِ مسلمہ کو اب جاگنا ہوگا۔ یہ وقت صرف دعا کا نہیں، بیداری کا ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا، عالمی سطح پر مشترکہ موقف اپنانا ہوگا، اور ظالم کے خلاف عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ تاریخ ہمیں ان قوموں میں شمار کرے گی، جو خاموشی سے ظلم کو دیکھتی رہیں… اور ختم ہو گئیں۔

اللّٰہ ہمیں غیرتِ ایمانی، اتحاد، اور عمل کی توفیق دے — آمین۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں