پانی کی خاموش جنگ زور پکڑ گئی ہے، اور بھارت کی آبی جارحیت نے پاکستان کے دریاؤں کو خشک کرنے کی نئی کوششیں شروع کر دی ہیں

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور دریاؤں میں پانی کی مصنوعی کمی اب ایک سنگین آبی بحران کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دریائے چناب میں پانی کی آمد خطرناک حد تک کم ہو کر صرف 5300 کیوسک رہ گئی ہے، جو کہ دو روز قبل 34 ہزار 600 کیوسک تھی۔ واپڈا کے مطابق بھارت نے دو دن میں چناب میں 35 ہزار 600 کیوسک پانی کی آمد روک کر واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر آمادہ ہے۔
یہ رویہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس میں طے پایا تھا کہ مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کے پاس ہوگا جبکہ مغربی دریاؤں — چناب، جہلم اور سندھ — کا پانی پاکستان کو ملے گا۔ تاہم، بھارت نہ صرف ان دریاؤں پر ڈیم بنا کر پانی روک رہا ہے بلکہ یکطرفہ اقدامات سے خطے کے امن کو بھی داؤ پر لگا رہا ہے۔
ترجمان واپڈا کے مطابق تربیلا، منگلا اور چشمہ کے ذخائر میں فی الحال پانی کی کچھ مقدار موجود ہے، مگر اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والے دنوں میں فصلوں، پینے کے پانی اور بجلی کی پیداوار پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر کسان طبقہ اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوگا جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں، بجلی کی قلت اور مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔
پانی کی یہ جنگ ایک ایسے وقت میں شدت اختیار کر رہی ہے جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس میں بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام عائد کیا اور سندھ طاس معاہدے کو عملاً معطل کر دیا۔ پاکستان نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ وزیراعظم شہباز شریف نے تحقیقات میں تعاون کی پیشکش بھی کی، جو کہ بھارت کی الزام تراشی کے مقابلے میں ایک ذمہ دارانہ اور سنجیدہ سفارتی رویہ تھا۔
اب یہ وقت ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر عالمی بینک، جو سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے، بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کا نوٹس لے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت نے آبی یا کسی اور قسم کی مہم جوئی کی کوشش کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جو وہ مدتوں یاد رکھے گا۔
یہ صورتحال نہ صرف پانی کی دستیابی کا مسئلہ ہے بلکہ یہ قومی خودمختاری، سلامتی اور خطے کے امن کا مسئلہ بھی بن چکی ہے۔ پانی کے لیے یہ جنگ اگر سفارتی محاذ پر نہ روکی گئی تو یہ کسی بڑے تصادم کی بنیاد بن سکتی ہے۔