سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور بھارت کی واٹر وار کی حقیقت — زمینی حقائق کیا کہتے ہیں؟

حالیہ خبروں اور بیانات کے تناظر میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے دریاؤں کا پانی مکمل طور پر روک دیا ہے، لیکن حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے۔ فی الحال بھارت کے پاس اتنا مکمل انفراسٹرکچر موجود نہیں کہ وہ تمام پانی کا بہاؤ روک سکے یا بڑی مقدار میں ذخیرہ کر سکے۔ جی ہاں، وہ پانی کا کچھ حصہ ڈائیورٹ کر سکتے ہیں — اور ماضی میں کرتے بھی آئے ہیں — مگر مکمل بندش کا فی الوقت کوئی عملی امکان نہیں۔

دریائے جہلم کا تقریباً 5 ہزار کیوسک اور دریائے چناب کا 7 ہزار کیوسک پانی روکنے کی اطلاعات زیرِ گردش ہیں، تاہم ان کی کوئی باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل ضرور کیا ہے، یعنی وہ اس پر وقتی طور پر عمل درآمد روک رہے ہیں، مگر اس کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔

گزشتہ ایک دہائی سے بھارت کو اس معاہدے میں “رکاوٹ” محسوس ہو رہی ہے، کیونکہ اس کے مطابق مشرقی دریا بھارت کے، اور مغربی دریا پاکستان کے لیے مخصوص ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات، زراعت اور آبادی کا دباؤ، بھارت کو ایسے انفراسٹرکچر کی جانب دھکیل رہا ہے جس سے وہ پانی پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکے — لیکن یہ کام محض دعووں سے ممکن نہیں۔ بڑے ڈیمز، نہری نظام، اور ان کی تعمیر میں اربوں کا سرمایہ اور کئی سال لگتے ہیں۔

گورداسپور اور اس کے گرد و نواح کا جغرافیہ — جہاں سطح زمین اونچی نیچی ہے — بھی اس عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایسی زمین پر مسلسل، متوازن واٹر فلو حاصل کرنا نہایت مشکل اور مہنگا ہوتا ہے۔

انڈیا کی یہ تازہ “واٹر وار” کی گیدڑ بھبھکی عملی طور پر اتنی آسان نہیں، جتنی بیان بازی میں لگتی ہے۔ اگر فوری طور پر پانی روکا بھی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں