جمہوریت کی آواز یا سیاسی ہلچل؟”

ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف حالیہ مظاہرے ایک بار پھر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ امریکا کی سیاسی فضا کس قدر منقسم اور پُر تناؤ ہو چکی ہے۔ ملک بھر میں 700 سے زائد مقامات پر ہزاروں افراد کا جمع ہونا صرف ایک سیاسی لیڈر کے خلاف غصے کا اظہار نہیں، بلکہ یہ امریکی عوام کے اس شعور کی علامت ہے جو جمہوریت، قانون کی حکمرانی، اور شفافیت کے لیے بےچین نظر آ رہا ہے۔
ان مظاہروں کا آغاز مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے گروپوں سے ہوا، مگر تیزی سے انہوں نے ایک ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر انصاف، قانون، اور سچائی کے نعرے درج تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شہری، چاہے وہ سابق صدر ہی کیوں نہ ہو، کو قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ مظاہروں میں شامل افراد کا تعلق مختلف نسلوں، عمر کے گروپوں اور پس منظر سے تھا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ غصہ صرف کسی ایک طبقے یا جماعت کا نہیں بلکہ ایک اجتماعی احساس بن چکا ہے۔
ٹرمپ کے خلاف جاری عدالتی کارروائیاں، جن میں دھاندلی، طاقت کے غلط استعمال، اور دیگر الزامات شامل ہیں، ان مظاہروں کا بنیادی محرک بنیں۔ اگرچہ ٹرمپ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں، مگر عوام کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ قانون کو اپنا راستہ لینا چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور شخص کیوں نہ ہو۔
یہ مظاہرے اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی جمہوریت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے، جہاں عوامی اعتماد کو بحال کرنا اور اداروں کی غیر جانب داری کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ان مظاہروں کو خوب پذیرائی ملی، جہاں نوجوان نسل نے بھرپور طریقے سے حصہ لے کر یہ پیغام دیا کہ وہ سیاسی شعور رکھتی ہے اور ملک کے مستقبل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
مستقبل میں یہ احتجاج امریکا کی سیاست پر کیا اثرات مرتب کریں گے، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا، مگر ایک بات طے ہے: امریکی عوام اب خاموش نہیں رہیں گے، اور اگر انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ آئی تو وہ سڑکوں پر اپنی موجودگی سے اسے چیلنج کرنے کے لیے تیار ہوں گے.