“یہ بجٹ نہیں، ایک خاموش معاشی قتل ہے!”

یہ بجٹ اُس طبقے کے لیے نہیں جو صبح نوکری پر نکلتا ہے، مہینے کے آخر میں بجلی، گیس، بچوں کی فیس اور راشن کا حساب کرتا ہے۔ تنخواہ میں دس فیصد کا اضافے کی خوشخبری دے کر، ایک ہاتھ سے تھپکی اور دوسرے ہاتھ سے مالیاتی چھری مار دی گئی۔ پنشن میں سات فیصد اضافہ وہ مزاق ہے جو بڑھتی مہنگائی کے سامنے بے معنی ہو گیا ہے۔
جہاں عوام کو سولر پینلز کی طرف راغب کیا گیا تھا، وہیں اب ان پر ٹیکس عائد کر کے بجلی مافیا کو پھر سے زندگی دی جا رہی ہے۔ آن لائن رقم نکلوانے پر ٹیکس، ای کامرس پر 18% سیلز ٹیکس، اور چھوٹی گاڑی پر 19% کا مجموعی ٹیکس، سب اس بات کے ثبوت ہیں کہ حکومت نے غریب اور متوسط طبقے کو نشانہ بنایا ہے۔
پراپرٹی سیکٹر کو ٹیکس میں چھوٹ اور شرح سود میں کمی سے نواز کر، پھر وہی کھیل دہرایا گیا ہے: دولت مند مزید دولت کمائے اور حقیقی معیشت، یعنی مینوفیکچرنگ، دم توڑتی رہے۔ چھوٹے کاروباری اور تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جبکہ امیر طبقے کو اس بجٹ میں چُھوا تک نہیں گیا۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ڈھائی ارب دے کر خیرات بانٹی جا رہی ہے، لیکن روزگار پیدا کرنے والے شعبوں پر بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو اسٹارٹ اپ کا خواب دکھا کر، ان پر ٹیکس لگا کر حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تین لاکھ سے کم کمانے والوں کو اگرچہ ریلیف دیا گیا، لیکن پیسے نکالنے پر ہی ٹیکس لگا دیا گیا۔
ریلوے جیسے ادارے کو 120 ارب، مگر تعلیم کو صرف 65 ارب؟ کیا ہم قوم بنانے جا رہے ہیں یا ووٹ بینک پالنے؟
یہ بجٹ مڈل کلاس کے لیے ایک اعلانِ جنگ ہے۔ وہ طبقہ جو سب سے زیادہ محنت کرتا ہے، سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، مگر سب سے کم واپس پاتا ہے۔ نہ انصاف، نہ روزگار، نہ سہولت، نہ تحفظ۔
جب ریاست عوام کی فلاح کے بجائے اشرافیہ کی سہولت کا منصوبہ بنائے، تو ہجرت خواب نہیں، مجبوری بن جاتی ہے۔ 17.6 کھرب کے بجٹ میں سے اگر 6.2 کھرب قرضوں پر چلا جائے، اور شہری پر صرف بارہ روپے مہینہ خرچ ہو تو یہ قوم کہاں سے کھڑی ہو گی؟
یہ بجٹ اُن کے لیے ہے جو پہلے سے طاقتور ہیں۔ اور جو کمزور ہیں، اُنہیں یہ مزید کمزور کر دے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار گولی کی جگہ کاغذ کا وار ہے — بے آواز، مگر جان لیوا۔