یہ سوال واقعی بہت اہم، حساس اور غور طلب ہے — “کیا صرف دشمن بیرونی ہوتا ہے؟ یا اندر سے بھی کوئی راستہ دیتا ہے؟”

ایران کی فوجی اور ایٹمی قیادت کے خلاف اسرائیل کی حالیہ کارروائیاں، جو نہایت حد تک ہدف پر مبنی (precise) ہیں، صرف ٹیکنالوجی یا سیٹلائٹ کیمرے سے ممکن نہیں۔ یہ بات خود ایرانی عوام اور قیادت کے ذہن میں گردش کر رہی ہے کہ آخر اتنی خفیہ معلومات بیرونِ ملک کیسے پہنچتی ہیں؟ جب ایک ایٹمی سائنسدان کی رہائش، یا ایک جرنیل کا غیر سرکاری اجلاس، ایک ہزار کلومیٹر دور سے ٹارگٹ کر کے تباہ کیا جاتا ہے — تو اس میں شک نہیں رہ جاتا کہ کہیں نہ کہیں اندر سے دراڑ موجود ہے۔
ایران کی تاریخ میں “نفوذی عناصر” یعنی اندرونی جاسوسوں کی کہانیاں نئی نہیں۔ ماضی میں بھی موساد اور دیگر مغربی ایجنسیاں ایرانی نظام میں گھس کر کئی بار کارروائیاں کر چکی ہیں، خاص طور پر جوہری پروگرام سے متعلق اہم افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں۔ سوال یہ نہیں کہ ایران بہادر ہے یا نہیں — سوال یہ ہے کہ ایسی دراڑیں کیسے موجود ہیں جن سے دشمن اندر تک جھانک رہا ہے؟
یہ ممکنہ طور پر:
داخلی سیاسی اختلافات،
کچھ مفاد پرست عناصر کا لالچ،
یا دباؤ میں آ کر تعاون کرنے والے افراد کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
موساد کی شہرت ہی یہ ہے کہ وہ ایک نظام کو اندر سے کمزور کر کے باہر سے وار کرتا ہے۔
ایرانی قیادت کو اب نہ صرف بیرونی حملوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے بلکہ داخلی صفوں میں چھپے ان غداروں کی چھان بین اور صفائی بھی سب سے اہم ترجیح بن چکی ہے۔ کیونکہ دشمن اگر باہر سے دیکھ رہا ہے، تو نشانوں کی نشاندہی اندر سے ہو رہی ہے۔