ایران میں ہزاروں پاکستانی، واپسی کا عمل جاری — پاکستانی سفیر کا بیان

ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے پیشِ نظر پاکستان نے ایران میں موجود اپنے شہریوں، خصوصاً طلبا اور زائرین کی واپسی کے لیے ہنگامی اقدامات تیز کر دیے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے اہم اعداد و شمار اور حکومتی اقدامات کی تفصیلات پیش کیں:
اہم نکات:
ایران میں 30 سے 40 ہزار پاکستانی موجود:
ان میں بڑی تعداد طلبا، زائرین، کاروباری افراد اور مزدوروں پر مشتمل ہے۔
155 پاکستانی طلبا کو تافتان بارڈر بھیجا جا رہا ہے:
یہ طلبا مختلف یونیورسٹیوں سے نکالے جا چکے ہیں اور انہیں بذریعہ زمینی راستہ پاکستان پہنچایا جائے گا۔
450 پاکستانی زائرین گزشتہ روز بارڈر پر پہنچ چکے ہیں:
زائرین کی واپسی کا عمل قسط وار جاری ہے تاکہ بھیڑ سے بچا جا سکے اور سیکیورٹی یقینی بنائی جا سکے۔
اس وقت ایران میں تقریباً 4 ہزار زائرین موجود ہیں:
ان کی واپسی کے لیے روزانہ کی بنیاد پر قافلے روانہ کیے جا رہے ہیں، جن کی مانیٹرنگ پاکستانی سفارتخانے کی نگرانی میں ہو رہی ہے۔
حکومتِ پاکستان کے اقدامات:
ایمرجنسی کوآرڈینیشن سیل کا قیام
زمینی بارڈر (تافتان) کو عارضی طور پر ری اوپن کر کے محفوظ انخلا کا انتظام
ایرانی حکام سے رابطے اور سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے مسلسل ڈپلومیسی
ایران میں پاکستانی سفارت خانہ اور قونصل خانے 24 گھنٹے فعال
زائرین اور طلبا کے لیے عارضی رہائش اور سفری سہولیات کی فراہمی
درپیش چیلنجز:
فضائی سفر خطرے میں: ایران کی فضائی حدود ممکنہ حملوں کے باعث جزوی طور پر بند یا غیر محفوظ قرار دی گئی ہے۔
بارڈر رش کا خدشہ: تافتان بارڈر پر رش اور وقت کی طوالت مزید دباؤ پیدا کر سکتی ہے۔
مواصلاتی رابطوں میں دشواری: ایرانی شہروں میں جزوی انٹرنیٹ بندش اور عوامی نقل و حرکت پر پابندیاں مشکلات بڑھا رہی ہیں۔
ایران میں موجود پاکستانی شہری اس وقت ایک غیر معمولی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں، مگر پاکستانی حکومت اور سفارتی عملہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ ان کی واپسی منظم، محفوظ اور فوری ہو۔
یہ ایک ایسا وقت ہے جب انسانی ہمدردی اور قومی یکجہتی دونوں کا امتحان ہے۔