شفافیت یا سیاست؟” — پنجاب بھر میں ہسپتالوں کی نگرانی پر معمور ریٹائرڈ فوجی MEA افسران کو ہٹا دیا گیا

راولپنڈی سمیت پنجاب بھر میں محکمہ صحت کے زیر انتظام سرکاری اسپتالوں میں مانیٹرنگ کیلئے تعینات ریٹائرڈ فوجی MEA (Monitoring and Evaluation Assistants) افسران کو اچانک ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ افسران گزشتہ چند برسوں سے ہسپتالوں میں سہولیات، صفائی، حاضری، ادویات کی دستیابی، اور مجموعی کارکردگی کی نگرانی کیلئے تعینات تھے، اور ان کی موجودگی کو ایک مؤثر احتسابی نظام کی شکل میں دیکھا جا رہا تھا۔
🏥 پس منظر: MEA افسران کا کردار
یہ ریٹائرڈ فوجی افسران خصوصی طور پر بھرتی کیے گئے تھے تاکہ وہ محکمہ صحت کی کارکردگی کا غیر جانبدارانہ جائزہ لے سکیں۔ انہیں اس مقصد کے لیے مکمل اختیارات دیے گئے تھے، بشمول سرکاری گاڑیاں، موٹرسائیکلز اور جدید Tablets، جن کے ذریعے وہ ہر ضلع اور تحصیل سے روزانہ کی بنیاد پر ڈیجیٹل رپورٹس ارسال کرتے تھے۔ یہ نظام اس وقت رائج کیا گیا تھا جب پنجاب میں صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں تیز ہو چکی تھیں، اور حکومت کی طرف سے نتائج پر مبنی گورننس (Result-Based Governance) کا تصور عملی شکل اختیار کر رہا تھا۔
⚙ اچانک تبدیلی: کیا ہوا؟
حالیہ دنوں میں محکمہ صحت نے اچانک فیصلہ کرتے ہوئے تمام MEA افسران کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا ہے۔ ان سے فوری طور پر سرکاری سہولیات واپس لے لی گئی ہیں، جن میں گاڑیاں، موٹرسائیکلز، اور مانیٹرنگ کے لیے دیے گئے Tablets شامل ہیں۔ اس فیصلے سے نہ صرف ان افسران کو حیرت ہوئی، بلکہ محکمہ صحت کے اندرونی حلقوں اور فیلڈ اسٹاف میں بھی بے چینی پھیل گئی ہے۔
❓ سوالات اور خدشات
اس اچانک فیصلے پر کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں:
کیا MEA افسران کی کارکردگی غیر تسلی بخش تھی؟
کیا حکومت کے پاس مانیٹرنگ کے لیے کوئی نیا نظام موجود ہے؟
کیا یہ اقدام بجٹ کٹاؤ، سیاسی دباؤ، یا بیوروکریسی کی اندرونی کھینچا تانی کا نتیجہ ہے؟
ہسپتالوں کی نگرانی اب کون کرے گا؟
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ MEA افسران کی نگرانی سے اسپتالوں میں نظم و ضبط بہتر ہوا تھا، جبکہ بعض حلقے اس نظام کو حد سے زیادہ سخت اور دباؤ ڈالنے والا تصور کرتے ہیں۔
🗣 عوامی اور ماہرین کا ردِعمل
صحت عامہ سے وابستہ ماہرین اور شہریوں کی رائے بھی منقسم ہے۔ ایک طرف کچھ لوگ اس تبدیلی کو نظام میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف بعض افراد کا کہنا ہے کہ MEA افسران کی موجودگی سے خوف کا ماحول پیدا ہوا تھا اور مقامی طبی عملہ غیر ضروری دباؤ کا شکار رہتا تھا۔
🔄 آگے کا راستہ: کیا نیا ماڈل آ رہا ہے؟
تاحال حکومتِ پنجاب یا محکمہ صحت کی جانب سے کوئی متبادل مانیٹرنگ ماڈل متعارف نہیں کرایا گیا۔ اگرچہ غیر رسمی طور پر کچھ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ ضلعی سطح پر پرانی مانیٹرنگ ٹیموں کو بحال کیا جائے گا، لیکن اس بارے میں کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا۔
شفافیت کے دعوے اور زمینی حقیقت
اس فیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید حکومت مانیٹرنگ کے نظام کو ازسرِ نو ترتیب دینا چاہتی ہے، مگر اس عمل میں اچانک اور بغیر کسی عبوری منصوبہ بندی کے اہم کرداروں کو ہٹا دینا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر مانیٹرنگ کا خلا برقرار رہا، تو خدشہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے اور سروس ڈیلیوری کا معیار نیچے جا سکتا ہے۔
ریٹائرڈ فوجی MEA افسران کی برطرفی صرف ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ یہ صحت عامہ کے نظام پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ اصلاحات کی طرف ایک قدم تھا یا ایک مؤثر نظام کے خاتمے کی شروعات۔