ٹرمپ کا ایران پر ممکنہ حملے کا اشارہ: اگلے دو ہفتے اہم.

واشنگٹن ڈی سی — امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سیاسی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایران پر ممکنہ حملے کا عندیہ دیا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود کشیدگی کو نئی شدت بخش دی ہے۔

ٹرمپ کا بیان
ٹرمپ نے کہا:

“ہم ایران کو خبردار کر چکے ہیں۔ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا، تو امریکہ اگلے دو ہفتوں میں فیصلہ کن اقدام اٹھا سکتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے “پراکسی ملیشیاؤں کی مدد، جو ہمارے اتحادیوں پر حملے کر رہی ہیں، ناقابلِ برداشت ہے”۔

سیاسی اور سفارتی سیاق
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب:

ایران پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کے الزامات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔

خلیج فارس میں امریکی بحری جہازوں کی نقل و حرکت بڑھ چکی ہے۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات قریب آ رہے ہیں، اور ٹرمپ خارجہ پالیسی کو اپنی انتخابی مہم کا اہم نکتہ بنا رہے ہیں۔

باضابطہ امریکی مؤقف
اگرچہ امریکی محکمہ دفاع یا وائٹ ہاؤس کی جانب سے اب تک ٹرمپ کے بیان پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن پینٹاگون کے قریبی ذرائع کے مطابق، خلیج میں امریکی افواج کو “ہائی الرٹ” پر رکھا گیا ہے اور خفیہ انٹیلیجنس سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں۔

ایران کا ردعمل
ایرانی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے بیان کو “سیاسی پروپیگنڈا” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ:

“ایران کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر کسی حملے کی صورت میں خاموش بھی نہیں بیٹھیں گے۔”

ایرانی میڈیا نے اس بیان کو “انتخابی ڈرامہ” قرار دیتے ہوئے امریکی سیاستدانوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ اندرونی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگ کی بات کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کی رائے
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اس صورتحال کو “خطرناک مگر سیاسی طور پر محرک” قرار دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر سارہ ہڈسن، (یونیورسٹی آف جارج ٹاؤن): “ٹرمپ کا یہ بیان دراصل ان کی انتخابی مہم کو متحرک کرنے کی کوشش ہے۔”

پروفیسر احمد زیدی، (تہران یونیورسٹی): “ایران نے ماضی میں بھی ایسی دھمکیوں کا سامنا کیا ہے، مگر اب عالمی حالات مختلف ہیں۔ چین اور روس جیسے ممالک کھل کر ایران کی حمایت کر رہے ہیں۔”

ممکنہ اثرات
اگر امریکہ کی جانب سے کوئی بھی عسکری کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو:

تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔

پاکستان، ترکی اور خلیجی ممالک کے لیے سفارتی چیلنجز بڑھ سکتے ہیں۔

ایران کی جانب سے اسرائیل یا امریکی مفادات پر براہِ راست یا پراکسی حملوں کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں