ٹرمپ، پوتن ملاقات۔۔۔ کلیدی مسئلے پر اتفاق نہ ہو سکا، ٹرمپ کا انکشاف

عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بننے والی ٹرمپ-پوتن ملاقات اہم معاملات میں پیش رفت کے بجائے اختلافات کی نذر ہو گئی۔
رپورٹ:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان حالیہ ملاقات، جسے عالمی سفارتی حلقے ایک “اہم سنگِ میل” قرار دے رہے تھے، اختتام کو تو پہنچی لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان سب سے اہم نکتے پر کوئی معاہدہ یا واضح پیش رفت نہ ہو سکی۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ “ہم نے کئی امور پر بات چیت کی، کچھ پہلوؤں پر اتفاق رائے بھی ہوا، لیکن ایک نہایت اہم نکتہ ایسا تھا جس پر ہم دونوں اپنے مؤقف پر قائم رہے اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہیں بن سکا۔”
اگرچہ ٹرمپ نے اس “اہم نکتے” کی وضاحت نہیں کی، لیکن مبصرین کے مطابق یہ معاملہ یوکرین کی صورتحال، نیٹو کی توسیع یا سائبر سکیورٹی سے متعلق ہو سکتا ہے — وہ مسائل جن پر ماضی میں بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی رہی ہے۔
ملاقات کا پس منظر:
یہ ملاقات ایک غیرجانبدار مقام پر ہوئی جہاں دونوں رہنماؤں نے کئی گھنٹوں پر مشتمل بریفنگز، وفود کی سطح پر مذاکرات اور ون آن ون نشستیں کیں۔ دونوں صدور نے اقتصادی تعاون، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسٹریٹیجک ہتھیاروں میں کمی جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
پوتن کا مؤقف:
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بعد ازاں اپنے بیان میں کہا کہ روس بات چیت اور تعلقات کی بہتری کے لیے تیار ہے، مگر روس کے “قومی مفادات اور خودمختاری پر سمجھوتہ ممکن نہیں۔” ان کے الفاظ میں، “بات چیت جاری رہے گی لیکن روس اپنی سرخ لکیر سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔”
تجزیہ کاروں کی رائے:
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات اگرچہ ظاہری طور پر کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم ہوئی، لیکن دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان براہِ راست بات چیت کا تسلسل ہی مثبت علامت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں کسی بڑے معاہدے یا پیش رفت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ اور پوتن کی اس اہم ملاقات میں کئی معاملات زیر بحث آئے، لیکن سب سے اہم مسئلہ بدستور حل طلب ہے۔ دنیا کی نظریں اب اس بات پر مرکوز ہیں کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کس سمت میں بڑھتے ہیں — تعاون کی طرف یا تصادم کی طرف۔