“ٹرمپ نے ہارورڈ کو روک دیا؟ بین الاقوامی طلبہ کا خواب چکنا چور!”

“پڑھنے آئے، اور نکالے جا رہے ہیں؟”
ٹرمپ انتظامیہ کی متنازعہ پالیسی نے نہ صرف نئے داخلے کے خواہشمند طلبہ کے خواب توڑے بلکہ پہلے سے امریکہ میں مقیم ہزاروں طلبہ کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیا۔

پس منظر:
2020 میں کورونا کی عالمی وبا کے دوران جب یونیورسٹیاں آن لائن کلاسز کی طرف گئیں، تو ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا:

“اگر بین الاقوامی طلبہ کی کلاسز صرف آن لائن ہوں گی، تو وہ امریکہ میں قیام کے اہل نہیں رہیں گے۔”

😟 پہلے سے موجود طلبہ کا کیا بنے گا؟
یہ پالیسی ان طلبہ کے لیے ایک دھچکہ تھی جو:

کئی سالوں سے امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے

مہنگی فیسیں ادا کر چکے تھے

ویزا اور رہائش کے معاملات نمٹا چکے تھے

انہیں یا تو فزیکل کلاسز تلاش کرنے پر مجبور کیا گیا یا پھر اپنا تعلیمی سال چھوڑ کر ملک واپس جانے کا خطرہ مول لینا پڑا۔

🎓 اداروں کا ردعمل:
ہارورڈ اور MIT نے فوری طور پر مقدمہ دائر کیا، جس میں کہا گیا:

“یہ فیصلہ طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے، جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں تعلیم کے لیے آئے ہیں۔”

شدید دباؤ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے پالیسی واپس لے لی، اور طلبہ کو امریکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔

🌐 عالمی سطح پر اثر:
طلبہ کو غیر یقینی کا سامنا کرنا پڑا

والدین، جامعات اور سفارتخانوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا

امریکی تعلیمی ساکھ کو دھچکا لگا

یہ واقعہ بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک تلخ یاد بن گیا کہ سیاسی فیصلے کس طرح تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگا سکتے ہیں۔
امریکی جامعات کی خودمختاری اور طالب علموں کی حفاظت کا سوال آج بھی باقی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں