20 منٹ کی مہلت: اسپتال پر حملے سے پہلے اسرائیلی فوج کی دھمکی”

غزہ کی جنگ زدہ فضاؤں میں جب زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ لمحوں کا رہ جائے، تو انسانیت کے نام پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ حالیہ واقعہ، جو ایک اسپتال سے متعلق ہے، نے دنیا بھر میں ہمدردی اور غصے کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔

یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب اسرائیلی فوج کے ایک افسر نے غزہ کے ایک اسپتال کے سینئر ڈاکٹر کو فون کیا۔ اس کال میں، جس کا لب و لہجہ نہایت سخت اور بے رحمانہ تھا، افسر نے کہا: “تمام مریضوں اور بے گھر افراد کو فوری طور پر اسپتال سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر لے جائیں، اور ایسا کرنے کے لیے آپ کے پاس صرف 20 منٹ ہیں۔”

یہ صرف ایک دھمکی نہیں تھی بلکہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کے بعد موت کا سایہ اسپتال کے در و دیوار پر منڈلانے لگا۔ اسپتال، جہاں زندگی بچانے کا کام کیا جاتا ہے، جہاں درد کم کیا جاتا ہے، جہاں انسانیت کو سہاگ دیا جاتا ہے، وہاں اب خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔

ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف نے صرف بیس منٹ کے اندر کیا کچھ نہیں کیا؟ وینٹی لیٹر پر موجود مریض، شدید زخمی بچے، زچگی میں مبتلا خواتین، اور وہ سینکڑوں افراد جو بمباری سے بچنے کے لیے اسپتال میں پناہ لیے ہوئے تھے—سب کو فوری طور پر نکالنے کی کوشش شروع ہو گئی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بیس منٹ میں ایسا ممکن تھا؟ کیا اسپتال جنگی زون بن گئے ہیں؟ اور اگر ہاں، تو انسانیت کا کیا بنے گا؟

اس واقعے نے عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ، ریڈ کراس، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے ادارے بار بار یہ دہرا چکے ہیں کہ اسپتال اور طبی عملہ کسی بھی جنگی کارروائی سے مستثنیٰ ہونا چاہیے۔ لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔

اس حملے کے بعد نہ صرف اسپتال کو نقصان پہنچا، بلکہ کئی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ اور سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو زندگی بچانے کے لیے اسپتال میں لایا گیا تھا، وہیں موت نے انھیں آ گھیرا۔

کیا ایک انسان کو بیس منٹ میں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کن مریضوں کو بچا سکتا ہے اور کنہیں مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہوگا؟ یہ صرف ایک ڈاکٹر کی بے بسی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی انسانیت کی ہار ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں