سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں ٹیسلا کی مینوفیکچرنگ فیکٹری کے منصوبے کو “امریکہ کے ساتھ بہت زیادتی” قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایلون مسک بھارت میں فیکٹری قائم کرتے ہیں تو یہ امریکی مفادات کے خلاف ہوگا۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے درآمدی گاڑیوں پر عائد 100 فیصد ٹیکس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے امریکی کمپنیوں کے لیے بھارتی مارکیٹ میں داخلہ مشکل ہو جاتا ہے ۔
ٹرمپ کے ان بیانات کے بعد، بھارتی وزیر برائے ہیوی انڈسٹریز، ایچ ڈی کمارا سوامی نے 3 جون 2025 کو تصدیق کی کہ ٹیسلا اب بھارت میں مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ کمپنی صرف شورومز کھولنے اور گاڑیوں کی درآمد پر توجہ دے رہی ہے ۔
بھارتی حکومت نے مارچ 2025 میں ایک نئی الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی متعارف کرائی تھی، جس کے تحت وہ کمپنیاں جو کم از کم 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے مقامی مینوفیکچرنگ شروع کریں، انہیں درآمدی ٹیکس میں 15 فیصد تک رعایت دی جائے گی۔ یہ پالیسی خاص طور پر ٹیسلا کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھی، لیکن اب دیگر عالمی کمپنیاں جیسے مرسڈیز بینز اور ووکس ویگن اس میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں ۔
ٹیسلا کی جانب سے بھارت میں صرف شورومز کھولنے کا فیصلہ، جہاں وہ نئی دہلی اور ممبئی میں مقامات تلاش کر رہی ہے، بھارت کی “میک ان انڈیا” مہم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اس سے نہ صرف مقامی روزگار کے مواقع متاثر ہوں گے بلکہ بھارت کی EV مارکیٹ میں عالمی سرمایہ کاری کے امکانات بھی محدود ہو سکتے ہیں ۔
ٹرمپ کے بیانات اور ٹیسلا کے فیصلے سے بھارت کی EV پالیسی اور عالمی سرمایہ کاری کے لیے ایک نیا چیلنج پیدا ہوا ہے۔ اگرچہ بھارت نے درآمدی ٹیکس میں کمی اور مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کیے ہیں، لیکن ٹیسلا جیسے بڑے برانڈز کی عدم دلچسپی سے یہ کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ٹرمپ کی ایپل کو بھارت میں فیکٹریاں نہ لگانے کی ہدایت: مودی کے ‘شائننگ انڈیا’ کو ایک اور دھچکا