ترکی اور اسرائیل آمنے سامنے؟ شام ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر

مشرق وسطیٰ ایک بار پھر بھڑکنے کو ہے، اور اس بار نظر ترکی اور اسرائیل کے ممکنہ ٹکراؤ پر ہے۔ سفارتی تعلقات میں سردمہری، بڑھتے ہوئے بیانات، اور عسکری چالیں — سب کچھ اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ خطے میں حالات کسی بڑے تصادم کی طرف جا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی شام کے لیے بجی ہے، جہاں یہ دونوں طاقتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک دوسرے کے مقابل آنے کی تیاریوں میں دکھائی دے رہی ہیں۔
شام، جو پہلے ہی ایک دہائی سے زائد عرصے سے خانہ جنگی، غیر ملکی مداخلت اور انسانی بحران کا شکار ہے، اب ایک بار پھر ممکنہ جنگی میدان بننے جا رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں پر فضائی حملے معمول بن چکے ہیں، جبکہ ترکی شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔
ترکی کا مؤقف ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے قریب “دہشت گرد عناصر” کو برداشت نہیں کرے گا، جبکہ اسرائیل ہر اس عنصر کو نشانہ بنانے پر تُلا ہے جسے وہ ایرانی اثر و رسوخ کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کشمکش میں اگر دونوں ممالک کا عسکری دائرہ ایک دوسرے سے متصادم ہوا، تو شام ایک نئی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے — وہ جنگ جو شام کی نہیں، مگر شام میں لڑی جائے گی۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے ان بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، مگر ابھی تک کوئی مؤثر سفارتی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ عرب دنیا کی خاموشی اور بڑی طاقتوں کی پس پردہ سیاست نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
شامی عوام کے لیے یہ سب کچھ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ جو لوگ برسوں سے اپنے گھروں، خاندانوں اور امن سے محروم ہیں، اب ایک نئی جنگ کے خدشے کے ساتھ زندہ ہیں۔ اسپتال پہلے ہی کھنڈر بن چکے، اسکول بند، معیشت تباہ اور نسلیں بے گھر — اس سب کے باوجود جنگ کی دھمک قریب تر محسوس ہو رہی ہے۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہوش مندی، دانشمندانہ سفارت کاری اور طاقت کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دینے کی ہے۔ بصورت دیگر شام کی سرزمین ایک بار پھر خون میں رنگی جا سکتی ہے، اور اس بار اس کا دائرہ صرف مقامی نہیں، بلکہ علاقائی سطح پر پھیلنے کا خدشہ ہے۔