Twitter یعنی X کی پاکستان میں بندش کی!”

“جب اظہارِ رائے کی آزادی، قومی سلامتی سے ٹکرا جائے تو سوشل میڈیا پر پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں — یہی کہانی ہے Twitter یعنی X کی پاکستان میں بندش کی!”


تفصیلی مضمون:

تعارف:

سوشل میڈیا دورِ حاضر میں معلومات، رائے، اور خبروں کے تبادلے کا سب سے طاقتور ذریعہ بن چکا ہے۔ خاص طور پر Twitter — جو اب ‘X’ کے نام سے جانا جاتا ہے — نے دنیا بھر میں فوری اطلاعات اور سیاسی بیانیے بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی تبدیلیاں، عوامی جذبات اور بیانیاتی جنگیں تیزی سے چلتی ہیں، وہاں ایسے پلیٹ فارمز کی موجودگی نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جب یہی پلیٹ فارم ریاستی اداروں اور حکومتی پالیسیوں کے لیے چیلنج بننے لگے، تو ان پر بندش کا فیصلہ کیا گیا۔


Twitter کی بندش — پس منظر اور حقیقت:

پاکستان میں ‘X’ (سابقہ Twitter) کو فروری 2024 میں اچانک بند کر دیا گیا۔ اس بندش نے نہ صرف صحافیوں، سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو متاثر کیا بلکہ عام شہری بھی ایک موثر معلوماتی ذریعہ سے محروم ہو گئے۔

حکومت کی جانب سے اس بندش کی وجوہات میں کہا گیا کہ:

  • کچھ صارفین Twitter پر جعلی خبریں، اشتعال انگیز بیانات اور ریاست مخالف مواد شیئر کر رہے تھے۔

  • سوشل میڈیا پر انتخابی نتائج کے بعد دھاندلی کے الزامات اور حساس اداروں پر براہ راست تنقید کی جا رہی تھی۔

  • مخصوص اکاؤنٹس کی نشاندہی کے باوجود Twitter/X انتظامیہ نے ان کو بند یا محدود کرنے کے حوالے سے حکومتِ پاکستان کی درخواستوں کو نظر انداز کیا۔

  • اس کے علاوہ، کچھ مواقع پر مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ مواد بھی بغیر کسی روک ٹوک کے گردش کرتا رہا۔

ان تمام وجوہات کو بنیاد بنا کر حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘X’ کو بند کر دیا، تاکہ قومی سلامتی، عوامی نظم و ضبط، اور ریاستی اداروں کے وقار کو نقصان نہ پہنچے۔


بحالی کیوں اور کیسے ہوئی؟

تقریباً ایک سال کی بندش کے بعد، 2025 کے وسط میں ‘X’ کو پاکستان میں دوبارہ بحال کیا گیا۔ اس کی بڑی وجہ بین الاقوامی تنقید، انسانی حقوق کی تنظیموں کا دباؤ، اور ملک کے اندرونی و بیرونی چیلنجز بنے۔

حکومت نے اس بات کو محسوس کیا کہ:

  • سوشل میڈیا پر اپنی بیانیہ پیش کیے بغیر عالمی سطح پر پاکستان کی آواز کمزور ہو رہی ہے۔

  • ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت کے ساتھ میڈیا جنگ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑا جا رہا ہے۔

  • نوجوان طبقہ، جو کہ معلومات کا زیادہ تر انحصار سوشل میڈیا پر کرتا ہے، خود کو الگ تھلگ محسوس کر رہا ہے۔

لہٰذا حکومت نے ‘X’ کو مخصوص شرائط کے ساتھ بحال کر دیا، جیسے:

  • پاکستان میں مقیم صارفین کے لیے مواد کی مانیٹرنگ۔

  • مخصوص حساس موضوعات پر پوسٹس کو محدود کرنا۔

  • حکومتی ہدایات پر عملدرآمد کی یقین دہانی۔


Twitter کا نام ‘X’ کیوں رکھا گیا؟

جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ Twitter کا نام ‘X’ کیوں رکھا گیا تو اس کا جواب Elon Musk کی ٹیکنالوجی اور برانڈنگ سے متعلق سوچ میں ملتا ہے۔

  • Elon Musk نے Twitter کو خریدنے کے بعد یہ واضح کیا کہ وہ اسے ایک روایتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے بجائے “سب کچھ شامل کرنے والا ایک سُپر ایپ” بنانا چاہتے ہیں۔

  • ان کے مطابق ‘X’ ایک ایسا پلیٹ فارم ہوگا جہاں نہ صرف سوشل میڈیا کی سہولت ہوگی، بلکہ پیمنٹس، ویڈیوز، مارکیٹنگ، کمیونیکیشن، اور شاپنگ جیسے فیچرز بھی ہوں گے۔

  • یہ تبدیلی صرف نام کی نہیں بلکہ پورے وژن کی ہے۔ انہوں نے Twitter کا پرانا لوگو (نیلا پرندہ) بھی ختم کر دیا اور اسے ایک سادہ مگر مستقبل نما علامت ‘X’ سے بدل دیا۔

  • Twitter.com کا URL بھی تبدیل کر کے X.com کر دیا گیا، جو کہ Musk کے بچپن کے خواب سے جڑا ہوا ہے، جب انہوں نے اپنی پہلی کمپنی کا یہی نام رکھا تھا۔


تنقید اور عوامی ردعمل:

پاکستان میں X کی بندش پر مختلف طبقوں نے مختلف رائے دی:

  • صحافیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹس نے اس بندش کو آزادیٔ اظہار کے خلاف قرار دیا۔

  • بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر تنقید کو دبانے کے لیے یہ قدم اٹھایا، تاکہ عوام کی رائے پر کنٹرول رکھا جا سکے۔

  • دوسری طرف حکومت کے حامی حلقے کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال ریاستی اداروں کو کمزور کرنے اور افراتفری پھیلانے کے لیے کیا جا رہا تھا، لہٰذا بندش ناگزیر تھی۔


پاکستان میں ‘X’ (Twitter) کی بندش اور بحالی کا معاملہ محض ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ آزادیٔ اظہار، ریاستی پالیسی، اور جدید ڈیجیٹل دنیا کے درمیان توازن تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ جہاں ایک طرف حکومت قومی مفادات کی حفاظت کی بات کرتی ہے، وہیں عوام اور شہری تنظیمیں آزادیوں کی بحالی کا مطالبہ کرتی ہیں۔

‘X’ کا نام اور شکل بدل جانا ایک عالمی بزنس حکمت عملی کا حصہ ہے، لیکن پاکستان میں اس کی بندش اور بحالی ایک سیاسی اور سماجی بیانیے کی جنگ کا اہم حصہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں