“عالمی دباؤ کے تحت نیتن یاہو نے جنگ بندی کی ہامی تو بھر لی، مگر میدانِ جنگ میں گولیاں اب بھی خاموش نہیں ہوئیں۔”

تفصیلی کہانی:
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے امریکی دباؤ اور عالمی سفارتی کوششوں کے بعد ایران کے ساتھ ایک “جامع جنگ بندی معاہدے” کی منظوری دی، جس کا باضابطہ اعلان امریکی صدر ٹرمپ نے کیا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو فوری طور پر جارحانہ کارروائیاں روکنے اور خطے میں استحکام کے لیے سفارتی راستہ اپنانے کی ہدایت دی گئی۔

نیتن یاہو نے کہا کہ “ہم اپنے اہم اسٹریٹیجک اہداف حاصل کر چکے ہیں” اور اب وقت ہے کہ خطے میں امن کو موقع دیا جائے۔ اس اعلان کے بعد دنیا بھر میں وقتی سکون کا احساس پھیلا، مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

ایران نے تہران میں اپنی سائنسدان ڈاکٹر ندا رفیعی پارسا کی شہادت کے بعد غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مزید میزائل حملے کیے۔ اسرائیل نے بھی فوری جوابی حملے کر کے جنگ بندی کو غیر رسمی طور پر نظر انداز کر دیا۔

اسرائیلی اپوزیشن، خاص طور پر لیکود پارٹی، نے نیتن یاہو پر شدید تنقید کی کہ وہ ایران کے خلاف مکمل کارروائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ اسی دوران ایرانی سپریم لیڈر نے “فتح کی ابتدا” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ “ہم ہر قطرہ خون کا حساب لیں گے”۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بندی صرف کاغذ پر موجود ہے، جبکہ عملی میدان میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ مشرق وسطیٰ ایک بار پھر ممکنہ بڑے پیمانے پر تصادم کی دہلیز پر کھڑا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں