امریکہ اور بھارت کا اسلحہ معاہدہ: خطے میں نئی اسٹریٹیجک صف بندیاں

امریکہ اور بھارت کے درمیان 131 ملین ڈالر کے اسلحہ معاہدے نے خطے میں نئی اسٹریٹیجک صف بندیوں کی نشاندہی کر دی ہے۔ بھارتی اخبار مڈ وے کے مطابق یہ معاہدہ بالخصوص سمندری جنگی سازوسامان کی فراہمی کے لیے کیا گیا ہے، جس میں جدید ٹارپیڈوز، نیول سسٹمز اور اینٹی سب میرین ٹیکنالوجی شامل ہے۔ اس پیش رفت کے ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے بھارت میں فوجی سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گذشتہ ایک ماہ میں 100 سے زائد امریکی C-17 طیارے بھارت میں لینڈ کر چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر آگرہ ائربیس پر اترے۔ ان طیاروں کے ذریعے لائے گئے اسلحے اور فوجی سامان کو بعد ازاں بحر ہند میں واقع امریکی فوجی اڈے ڈیاگو گارشیا منتقل کیا جا رہا ہے، جو ایران کے قریب واقع ایک حساس اسٹریٹیجک مقام ہے۔
یہ تمام صورت حال اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ بھارت کو خطے میں ایک ایسا کردار دینے کی کوشش کر رہا ہے جو ماضی میں اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں حاصل رہا ہے — یعنی ایک علاقائی طاقت جو امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے اور مخصوص اہداف کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرے۔ بھارت کو عسکری طور پر مضبوط کرنے کے اس عمل سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کا خدشہ ہے، خاص طور پر پاکستان اور چین جیسے ممالک کے لیے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتا فوجی اتحاد ایران کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ بحر ہند سے ایران کی نگرانی یا اس کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کی تیاری اس خطے میں امن و استحکام کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔
اس معاہدے اور سرگرمیوں کے اثرات صرف دفاعی دائرہ کار تک محدود نہیں، بلکہ اس کے سفارتی اور سیاسی نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ امریکہ کی اس حکمتِ عملی سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وہ ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کو ایک مرکزی اتحادی کے طور پر تیار کر رہا ہے، اور اس کی یہ پالیسی آنے والے دنوں میں مزید کھل کر سامنے آ سکتی ہے