ایران پر امریکی پابندیاں، مگر پاکستان اور ایران کے بیچ سرمایہ کاری کا حجم بڑھانا کیسے ممکن؟

یہ سوال بالکل درست ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کی موجودگی میں پاکستان-ایران معاشی تعاون کو عملی شکل دینا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ تاہم، دونوں ممالک نے جن 12 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں، وہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں جانب سیاسی عزم موجود ہے کہ رکاوٹوں کے باوجود باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھایا جائے۔
امریکی پابندیاں: اصل رکاوٹ یا قابلِ گریز؟
ایران پر عائد امریکی اقتصادی پابندیاں زیادہ تر بینکنگ چینلز، بین الاقوامی ڈالر ٹرانزیکشنز، اور توانائی (خصوصاً تیل اور گیس) کی فروخت پر مرکوز ہیں۔ ان پابندیوں کی موجودگی میں پاکستان کے لیے روایتی بینکنگ سسٹم کے ذریعے ایران کے ساتھ کاروبار کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود چند متبادل راستے موجود ہیں:
1. بارٹر ٹریڈ (اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت):
پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر ٹریڈ کا ایک میکانزم پہلے سے زیرِ غور ہے۔
اس ماڈل کے تحت دونوں ممالک ڈالر کے بجائے اجناس یا اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ کر سکتے ہیں، مثلاً پاکستان ایران سے گیس اور الیکٹرسٹی لے کر بدلے میں چاول، آم، یا دیگر زرعی مصنوعات دے سکتا ہے۔
“ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی دباؤ کے باوجود پاکستان نے پُر امن مقاصد کے لیے تہران کی کھل کر حمایت کر دی—خطے میں نئی سفارتی صف بندی!”
بلوچستان بارڈر پر بارٹر مارکیٹیں قائم کرنے پر بھی بات چیت جاری ہے۔
2. لوکل کرنسی یا متبادل کرنسیوں میں تجارت:
دونوں ممالک مقامی کرنسی یا چینی یوان جیسے متبادل کرنسی بلاکس پر بھی غور کر رہے ہیں تاکہ امریکی ڈالر پر انحصار کم کیا جا سکے۔
“روپیہ-ریال” میکانزم ایک آپشن ہو سکتا ہے، جیسا کہ ایران نے کچھ دیگر ممالک کے ساتھ اپنایا ہے۔
3. Cross-Border Special Economic Zones (SEZs):
سرحدی علاقوں میں خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) بنانے پر بھی معاہدے کیے گئے ہیں جہاں امریکی پابندیوں کے اثرات محدود ہو سکتے ہیں۔
یہ SEZs دونوں ممالک کو لوکلائزڈ پروڈکشن اور ٹریڈ ہب فراہم کریں گے جہاں اشیاء کا تبادلہ براہ راست ہو گا۔
4. علاقائی بلاک تعاون (China, Russia, Central Asia):
ایران، پاکستان، چین اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر ایک علاقائی اکنامک بلاک کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسی پلیٹ فارمز کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی سہولتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
چین کی پشت پناہی سے CPEC کے تحت ایران کو شامل کرنے پر بھی بات چیت ہو رہی ہے جو امریکی اثرات کو محدود کر سکتی ہے۔
5. توانائی (بجلی اور گیس) کے محدود پروجیکٹس:
ایران سے بلوچستان کو بجلی کی فراہمی کے چھوٹے پیمانے پر پروجیکٹس جاری ہیں جنہیں پابندیوں کے دائرہ کار سے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا دائرہ کار مقامی سطح پر محدود ہے۔
ایران-پاکستان گیس پائپ لائن پر کام کرنے کے لیے اب بھی سیاسی عزم درکار ہے، تاہم امریکی دباؤ کے باعث اس منصوبے پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔