امریکی محصولات کی یلغار اور جنوبی ایشیا کا امتحان: بحران یا موقع؟

جب امریکی صدر کی جانب سے اپریل میں اچانک اور سخت تجارتی محصولات کا اعلان سامنے آیا، تو دنیا کے لیے یہ کسی زلزلے سے کم نہ تھا۔ عالمی مارکیٹیں ہچکولے کھانے لگیں، سرمایہ کار پیچھے ہٹنے لگے، اور حکومتیں تشویش میں مبتلا ہو گئیں۔ اس اقتصادی طوفان کی لپیٹ میں جنوبی ایشیا بھی آ گیا — وہ خطہ جہاں دو ارب سے زائد انسان بستے ہیں، اور جو دنیا کی اہم ترین ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔

جنوبی ایشیا کی مجموعی معیشت کا حجم 50 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے، اور خطے کی برآمدات کا بڑا حصہ امریکا کی طرف جاتا ہے۔ 2024 میں صرف امریکہ کو کی جانے والی برآمدات کا حجم 83.6 ارب ڈالر تھا، جب کہ امریکہ سے درآمدات 43.8 ارب ڈالر — یعنی قریب 40 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ۔ یہی وہ گیپ تھا جسے امریکا نے تعزیری محصولات کی بنیاد بنا کر جنوبی ایشیائی معیشتوں کو نشانہ بنایا۔

سری لنکا پر 44 فیصد، بنگلہ دیش پر 37، پاکستان اور نیپال پر 29، اور بھارت پر 26 فیصد محصولات کا نفاذ ان ممالک کے لیے جھٹکا تھا، جو ویسے ہی مہنگائی، کرنسی کی گراوٹ اور قرض کے بوجھ سے دوچار ہیں۔ اگرچہ ان محصولات کو وقتی طور پر 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے، مگر خطرہ بدستور موجود ہے — ایک ایسی لٹکتی تلوار جو کبھی بھی دوبارہ حرکت میں آ سکتی ہے۔

اس تناظر میں جنوبی ایشیا کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک، انفرادی طور پر اپنے مسائل سے نمٹنا، اور دوسرا، اجتماعی سوچ اور عمل کی طرف بڑھنا۔ اگرچہ خطے میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے مابین تاریخی کشیدگیاں، سیاسی تضادات اور سفارتی چیلنجز موجود ہیں، لیکن معاشی حقیقتیں اب ایسی سطح پر پہنچ چکی ہیں جہاں تعاون ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔

جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان باہمی تجارت اس وقت صرف 5 فیصد ہے، جب کہ یورپی یونین میں یہ 68 فیصد، آسیان میں 27 فیصد اور شمالی امریکا میں 40 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اگر خطے میں تجارتی رکاوٹیں کم کر دی جائیں تو باہمی تجارت کا حجم 23 ارب ڈالر سے بڑھ کر 67 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔ گویا امریکہ کی جانب سے پیدا کیے گئے نقصان کا بڑا حصہ مقامی تعاون سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

ایسی صورت میں جنوبی ایشیا کو ایک نئی معاشی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے — ایک ایسی ریجنومکس، جو سیاسی اختلافات کے باوجود باہمی مفاد پر مبنی ہو۔ پاکستان اور بھارت جیسے بڑے ممالک اگر صرف تجارتی تعلقات میں نرمی لائیں، تو نہ صرف خطے کی معاشی ترقی کی رفتار بڑھے گی، بلکہ بیرونی دباؤ سے نمٹنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گی۔

اس وقت جب عالمی معیشت تیزی سے غیر یقینی کی طرف بڑھ رہی ہے، جنوبی ایشیا کے پاس موقع ہے کہ وہ بحران کو ایک نئے اتحاد، خود انحصاری اور علاقائی ترقی میں تبدیل کر دے۔ امریکی محصولات ایک چیلنج ضرور ہیں، لیکن ان کے سائے میں ایک نئے، مضبوط اور خودمختار جنوبی ایشیا کا خواب بھی ممکن ہے — بشرطیکہ نیت، حکمت اور ہم آہنگی ساتھ ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں