ماؤنٹ ایورسٹ پر ’معجزاتی گیس‘ کا استعمال – کارنامہ یا دھوکہ؟

برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے چار سابق اہلکاروں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو محض پانچ دن سے بھی کم وقت میں سر کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کامیابی کوہ پیمائی کی دنیا میں نہ صرف ایک بڑا کارنامہ سمجھی جا رہی ہے بلکہ اس پر تنازع بھی کھڑا ہو گیا ہے، کیونکہ اس غیر معمولی مہم میں انہوں نے ایک خاص گیس کا استعمال کیا جو انسانی جسم میں آکسیجن جذب کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔
عام طور پر کوہ پیمائی کے لیے جسم کو بلندی کے سخت ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ لیکن اس گیس کی مدد سے ان سابق فوجیوں نے بلندی کے اثرات کو کافی حد تک قابو میں رکھا اور کم وقت میں چوٹی تک پہنچ گئے۔
یہ گیس طبی طور پر استعمال کی جاتی ہے، لیکن اس کا کوہ پیمائی میں استعمال پہلی بار سامنے آیا ہے۔ سائنسی دنیا میں اس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا اس کا استعمال محفوظ ہے یا نہیں، جب کہ کوہ پیماؤں کا ایک بڑا حلقہ اسے غیر فطری مدد اور مہم کی روح کے منافی قرار دے رہا ہے۔
بعض نیپالی گائیڈز اور تجربہ کار کوہ پیما اس بات پر ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس طرح کی مہمات کو کامیابی کے بجائے “دھوکہ دہی” کہا جانا چاہیے، کیونکہ کوہ پیمائی صرف چوٹی سر کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک فطری جدوجہد، حوصلے اور جسمانی مزاحمت کی آزمائش ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی حدود کو اس طرح چیلنج کیا جانے لگا تو کیا مستقبل کی کوہ پیمائی بھی ایسی ہی ہو گی؟ کیا ایسے ریکارڈز کو تسلیم کرنا چاہیے؟
یہ محض ایک فتح کی نہیں، بلکہ ایڈونچر اور انسانیت کے اصل مفہوم پر ایک گہری بحث کی شروعات ہے۔