پاکستان اور بنگلہ دیش میں ویزا فری سفر کا معاہدہ

ایک نئی پیش رفت جو جنوبی ایشیا میں تعلقات کی سمت بدل سکتی ہے
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کئی دہائیوں سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ تاریخ، سیاست اور عوامی جذبات کی تلخیوں کے باوجود وقت کے ساتھ دونوں ممالک نے کئی مواقع پر اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب حالیہ پیش رفت — سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے لیے ویزا فری سفر کا معاہدہ — ان کوششوں کو مزید مضبوط اور عملی شکل دینے کی ایک اہم علامت بن کر سامنے آئی ہے۔
ملاقات اور معاہدہ:
یہ معاہدہ پاکستان کے وزیر داخلہ اور بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ کے درمیان ڈھاکہ میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات میں طے پایا۔ ملاقات نہ صرف رسمی نوعیت کی تھی بلکہ اس میں سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات، اور انسانی اسمگلنگ جیسے اہم مسائل پر سنجیدہ گفتگو کی گئی۔
معاہدے کے تحت، دونوں ممالک کے سفارتی (Diplomatic) اور سرکاری (Official) پاسپورٹ رکھنے والے شہری اب ویزا کے بغیر ایک دوسرے کے ملک کا سفر کر سکیں گے۔ یہ سہولت ابتدائی طور پر محدود سطح پر دی جا رہی ہے، لیکن مستقبل میں اس کا دائرہ وسیع کیے جانے کا امکان موجود ہے۔
سیکورٹی و انتظامی تعاون:
اس ملاقات کا ایک اور بڑا پہلو سیکورٹی تعاون میں وسعت تھا۔ دونوں ممالک نے فیصلہ کیا کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان براہ راست رابطے قائم کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں پولیس افسران کے تبادلے، مشترکہ تربیتی پروگرام، اور دہشت گردی کے خلاف معلومات کے تبادلے جیسے اقدامات پر بھی اتفاق کیا گیا۔
یہ ایک ایسا قدم ہے جس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بڑھے گا، بلکہ خطے میں امن اور استحکام کو فروغ ملے گا۔
اقتصادی و علاقائی تناظر:
ویزا فری معاہدے کو صرف سفارتی سطح تک محدود نہ سمجھا جائے۔ اس کے پیچھے ایک وسیع تر سوچ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک — خاص طور پر سارک ریجن — میں عوامی سطح پر رابطے، ثقافتی تبادلے، اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ترقی پذیر ممالک ہیں، جنہیں اپنی معیشتوں کو بہتر بنانے کے لیے نئے تجارتی اور سفارتی مواقع کی ضرورت ہے۔
ایسے میں اس قسم کا معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ازسرِنو ترتیب دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں جغرافیائی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔
ماضی کے تناظر میں اہمیت:
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 1971 کے واقعات کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں گہرے زخم اور شکوے موجود رہے ہیں۔ اگرچہ سفارتی سطح پر تعلقات بحال ہو چکے ہیں، مگر عوامی اور سیاسی سطح پر اب بھی بے اعتمادی کا عنصر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے میں یہ ویزا فری معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی نئی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
یہ نہ صرف رسمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہے، بلکہ ایک عملی قدم ہے جو دونوں قوموں کو قریب لا سکتا ہے۔
مستقبل کا امکان:
اگر اس معاہدے کا آغاز کامیاب رہا تو آنے والے وقت میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عام شہریوں کے لیے بھی ویزا کے قوانین نرم کیے جا سکتے ہیں، خاص طور پر کاروباری افراد، طلباء، اور ثقافتی نمائندوں کے لیے۔ یہ اقدام جنوبی ایشیاء میں تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے، جہاں سیاسی اختلافات کے باوجود معاشی، سماجی اور ثقافتی تعاون کو فوقیت دی جائے گی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ویزا فری سفر کا یہ معاہدہ محض ایک علامتی قدم نہیں بلکہ ایک عملی، مثبت اور دوررس اثرات کا حامل اقدام ہے۔ یہ دو ممالک کے تعلقات میں بہتری، عوامی رابطوں کے فروغ، اور علاقائی تعاون کے ایک نئے باب کی بنیاد رکھتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاہدہ کس حد تک عملی جامہ پہن سکتا ہے، اور کیا دونوں ممالک اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک دیرپا، پُرامن اور فائدہ مند تعلق کی طرف بڑھ سکیں گے۔