“جرگے کی صدائیں، امن کی نوید لے کر — وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ میں قبائلی رہنماؤں سے امن کا پیغام شیئر کرنے کا عزم کر لیا!”

گزشتہ شب (31 مئی 2025) وزیراعظم شہباز شریف ایک اعلیٰ سطحی سلامتی اور امن تا حدِ مقامی سطح کے مکالمے (جرگے) میں شرکت کے لیے کوئٹہ پہنچ گئے۔ انہیں کوئٹہ ائیر پورٹ پر بلوچستان کے صوبائی وزراء، سیکیورٹی حکام اور علاقائی قبائلی سرداروں نے روایتی شال اور ٹوپیاں اوڑھا کر خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، اباسین بلوچ نے بھی موجودگی کے باوجود اپنی گرم جوشی سے وزیراعظم کا استقبال کیا اور کہا کہ “یہ دورہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی اور دیرپائی امن کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔”

1. جرگے کا پسِ منظر اور مقصد:
بلوچستان میں قبائلی نظامِ حکمرانی کے تحت جرگہ ایک قدیم روایت ہے، جہاں مقامی حکمران یا سردار، وڈیرے اور عمائدین اپنے علاقے کے مسائل قبائلی روایت و قانون (رایہوسل) کے تحت حل کرتے ہیں۔

اس بار کا جرگہ خاص طور پر سیکیورٹی کی صورتحال ٹھیک کرنے، غیر معمولی لاپتہ افراد کے کیسز حل کرنے، اور علاقائی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے پر مرکوز ہے۔

وزیرِ دفاع اور وفاقی وزراء بھی جرگے میں شرکت کریں گے تاکہ وفاقی سطح پر ان معاملات کے حل میں یکجہتی اور تعاون کی واضح تصویر پیش ہو سکے۔

2. کوئٹہ میں قیام اور سیکورٹی انتظامات:
وزیراعظم کا کوٹلہ عبدالخالق بلوچ کے نزدیک واقع ضیائی ہاؤس میں قیام متعین کیا گیا ہے، جہاں پہلے سے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز نے آر اور ایس (RAID and Sweep) کے کمانڈوز کے ذریعے شہر کے داخلی و خارجی راستوں کی نگرانی بڑھا رکھی ہے۔ ہوائی اڈے، سندھ چوک، اور گوادر روڈ پر نیشنل رینجرز کے جوان اور پولیس اہلکار چوکس ہیں۔

کوئٹہ کے مقامی انتظامیہ نے نزدیک بس اسٹینڈز اور مارکیٹس میں بھی اضافی موبائل چیک پوسٹیں لگائی ہیں تاکہ کسی بھی طرح کی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔

3. جرگے میں شمولیت کنندگان:
سندھ، بلوچستان، اور خیبرپختونخواہ کے سرکردہ سردار، قبائلی عمائدین اور ضلعی کمشنرز بذریعہ دعوت شرکت کر رہے ہیں۔

جرگے کا ایک اہم مقصد پشتون اور بلوچ قبائل کے درمیان نزدیکی تعلقات بڑھانا بھی ہے، لہٰذا پشتون قیادت بھی شرکت کے لیے کوئٹہ پہنچی ہے۔

وفاقی حکومت کی طرف سے وزیرِ مملکت برائے قبائلی امور، سید سلطان محمود شاہ جرگے کے مذاکراتی عمل (peace talks) کو مانیٹر کرنے کے لیے موجود ہوں گے۔

4. جرگے کا ایجنڈا:
لاپتہ افراد کا مسئلہ:

پچھلے چند سالوں میں ان چند درجن نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی شکایات موصول ہوئیں جن کی بازیابی کے لیے وفاقی، صوبائی و مقامی پولیس اور فوج نے مشترکہ طور پر تشکیل دیے گئے گروپ بنائے۔ جرگے کی زیرِ صدارت ان لاپتہ افراد کے مقدمات کا جائزہ لیا جائے گا اور فیصلہ کیا جائے گا کہ کن کن صورتوں میں مقامی سردار اور اہلِ علاقہ خود ذمہ داری لے کر انہیں واپس لانے یا رشتہ داروں کی مدد سے مقدمات طے کرنے میں معاونت کریں۔

سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز اور مکالمہ:

قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے واقعات میں کمی کے لیے علاقائی معاہدہ طے کیا جائے گا، جس میں مقامی عمائدین نیٹو فورسز اور ضلعی حکومت کو باخبر رکھتے ہوئے کارروائیوں میں تعاون کریں گے تاکہ ‘گھات لگا کر علاقوں میں انتشار پھیلانے’ والی تنظیموں کو ناکام بنایا جا سکے۔

بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی تعمیر:

بلوچستان کے اکثر قبائلی علاقوں میں سڑکوں کی خستہ حالت ہے؛ جرگے میں شرکت کرنے والی وفاقی ٹیم نے بدین، نوشکی، چمن اور گرد و نواح میں نئی شاہراہوں کی تعمیر اور پلوں کی مرمت کا وعدہ کیا ہے۔

اسی طرح تعلیمی اداروں کی تعمیر و اسباب اور صحت کے مراکز کے قیام کے حوالے سے بھی ایک فریم ورک پیش کیا جائے گا تاکہ نوجوانوں کا مستقبل خطرے میں نہ پڑے۔

5. سفارتی اور سیاسی اہمیت:
حکومت پاکستان نے اس سفر کو نہ صرف صوبائی مسائل کے حل کا ذریعہ قرار دیا، بلکہ اسے سفارتی اشاعت کے طور پر بھی پیش کیا کہ “ہم فوجی حل کے ساتھ ساتھ سیاسی مکالمے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔”

یہ دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے عوام کو امن و ترقی کی طرف راغب کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون دکھانا چاہتی ہے، اور اس کے نتیجے میں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی وفاقی بجٹ میں بلوچستان کو اضافی حصہ دینے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔

موجودہ انتخابات کے تناظر میں بھی یہ جرگہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ سیاسی جماعتوں کو مقامی لیڈروں کے وقار اور ان کے مطالبات کا خیال رکھتے ہوئے کوئٹہ اور صوبے کے نچلے حلقوں میں ووٹ لینے کے لیے مقامی امن کا وعدہ کرنا پڑے گا۔

6. مقامی ردِّعمل:
قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ “ہم نے کئی سال انتظار کیا کہ سربراہِ مملکت خود آ کر ہمارے مسائل سنے اور مذاکرات کریں۔”

نوجوانوں کی ایک تنظیم نے جرگے سے امید ظاہر کی ہے کہ “اگر لاپتہ مسئلے اور بے روزگاری کا حل نکالا گیا تو پھر علاقے میں امن کی نوید ممکن ہو سکے گی۔”

بلوچستان اسٹوڈنٹس یونین نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ “تعلیم کے شعبے میں جدید و موثر نصاب کے ساتھ دیہی اور قبائلی علاقوں کے پرائمری اسکولوں کو اپ گریڈ کیا جائے، تاکہ نوجوان دہشت گردی اور ماحول دشمن سرگرمیوں سے دور رہیں۔”

اختتامی کلمات:
اسرائیلی وزیراعظم کا یہ کوئٹہ سفر اور جرگے میں شرکت، بلوچستان میں امن اور ترقی کے خواہاں تمام حلقوں کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اگر جرگے سے ٹھوس فیصلے سامنے آتے ہیں، جیسے لاپتہ افراد کی بازیابی، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ قبائلی تعاون کا میکانزم تو پھر یہ دورہ صوبے میں دیرپا امن و ہم آہنگی کا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سارے عمل میں مکالمے کو فوقیت دینے کی حکمتِ عملی، بالآخر “پشتون اور بلوچ بھائی چارے” کو مضبوط کرے گی اور پاکستان کے اندرونی سلامتی و استحکام کے تناظر کو بھی نئی جہت دے گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں