“جنگ کی دھمکیاں الفاظ سے نکل کر دہلیز پر آ چکی ہیں — اسرائیلی وزیر دفاع کا تہران خالی کرنے کا مطالبہ خطرے کی گھنٹی ہے!”

اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے تہران کے شہریوں کو شہر چھوڑنے کی وارننگ ایک غیر معمولی اور سنجیدہ نوعیت کا پیغام ہے، جو مشرقِ وسطیٰ کی پہلے سے کشیدہ فضا میں مزید تناؤ بھرنے کا عندیہ دیتا ہے۔ یہ بیان محض ایک سیاسی ردعمل نہیں بلکہ ممکنہ عسکری کارروائی کی تیاری یا نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی ہو سکتا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان برسوں پر محیط پراکسی جنگ، سائبر حملوں اور خفیہ کارروائیوں کا پس منظر ہے۔ تاہم، اس طرح کا کھلا اور براہِ راست پیغام اس کشیدگی کو نئی سطح پر لے جا رہا ہے۔ تہران جیسے گنجان آباد شہر کو خالی کرنے کی اپیل دراصل ایک ممکنہ حملے کی پیشگی تنبیہ ہو سکتی ہے، تاکہ مستقبل میں شہری ہلاکتوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔

ایسے بیانات بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دے سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور علاقائی طاقتیں اس وقت خاصی محتاط ہو گئی ہیں، کیونکہ کسی بھی ممکنہ جھڑپ سے پورے خطے میں جنگی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔ لبنان، شام، عراق اور خلیجی ریاستیں پہلے ہی اس کشمکش کے اثرات جھیل رہی ہیں۔

دوسری جانب، تہران کے عوام میں اس بیان سے بے چینی اور خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ شہری دفاعی تیاریوں، محفوظ پناہ گاہوں اور ایمرجنسی ریسپانس پر بات ہو رہی ہے، گو کہ حکومتِ ایران نے اسے “نفسیاتی جنگ” قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔

اگر بات صرف الفاظ تک محدود نہ رہی، تو مشرق وسطیٰ ایک اور بڑے تنازعے کی لپیٹ میں آ سکتا ہے — جس کے سیاسی، معاشی اور انسانی نتائج پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں