کیا ٹرمپ کی “ٹیرف جنگ” کا اصل ہدف صرف چین تھا؟

عالمی معیشت کی سب سے بڑی طاقت بننے کی دوڑ میں امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کشمکش کا ایک اہم پہلو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی ’ٹیرف جنگ‘ ہے۔ بظاہر یہ تجارتی تنازعہ تھا، جس کا مقصد امریکی تجارتی خسارے کو کم کرنا اور چینی مصنوعات پر انحصار کم کرنا بتایا گیا، لیکن درحقیقت اس کے پیچھے کئی گہرے عزائم اور اسٹریٹیجک مقاصد کارفرما تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے نزدیک چین صرف ایک تجارتی شراکت دار نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور تھا، جو نہ صرف معیشت بلکہ ٹیکنالوجی، عسکری میدان، اور عالمی سفارت کاری میں بھی امریکہ کو چیلنج دے رہا تھا۔ اس لیے ٹرمپ نے ایسے اقدامات کیے جو بظاہر معاشی لگتے تھے، لیکن دراصل اس کا دائرہ اثر سیاسی، دفاعی اور تزویراتی سطح تک پھیلا ہوا تھا۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ ٹیرف وار صرف چین کو روکنے کی کوشش نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد امریکہ کی اقتصادی خود مختاری کو بحال کرنا، اندرونِ ملک صنعتوں کو تقویت دینا، اور امریکی ووٹرز کو یہ باور کرانا تھا کہ ان کے مفادات کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے کہ چین امریکی نوکریاں چھین رہا ہے اور اسے سبق سکھانا ضروری ہے۔
لیکن چین نے بھی اس جنگ میں پسپائی اختیار نہیں کی۔ اس نے جوابی ٹیرف لگائے، اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے، اور نئی منڈیوں کی تلاش شروع کی۔ یوں یہ جنگ صرف دو ملکوں کے درمیان تجارتی تنازعہ نہ رہی بلکہ ایک عالمی مقابلہ بن گئی، جس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کیا۔ امریکی کسان، چھوٹے کاروبار، اور صارفین کو بھی مہنگائی اور درآمدی اشیاء کی قلت کا سامنا کرنا پڑا، جس پر خود امریکہ کے اندر بھی تنقید ہوئی۔
اس سارے عمل سے ایک بات واضح ہوتی ہے: ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی صرف فوری معاشی فائدے کے لیے نہیں تھی، بلکہ اس کے ذریعے امریکہ یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ وہ اب چین کو عالمی قیادت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اور وہ اپنی پوزیشن بچانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا — چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔
یعنی یہ صرف ایک معاشی جنگ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی، سیاسی، اور طاقت کی جنگ ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان یہ کشمکش آنے والے برسوں میں بھی جاری رہنے کا امکان رکھتی ہے، کیونکہ عالمی طاقت بننے کی اس دوڑ میں صرف تجارت نہیں، مستقبل کا پورا عالمی نظام داؤ پر لگا ہوا ہے.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں