“پانی وفاق کا نہیں، صوبوں کا ہے” — خرم دستگیر کا اہم بیان، وسائل کی تقسیم پر نئی بحث چِھڑ گئی۔

پاکستان میں وسائل کی تقسیم ہمیشہ ایک حساس اور متنازع معاملہ رہا ہے، خاص طور پر جب بات پانی جیسے قیمتی اور بنیادی قدرتی وسیلے کی ہو۔ حال ہی میں وفاقی وزیر خرم دستگیر نے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا: “پانی وفاق کا نہیں، صوبوں کا ہے”۔ یہ مختصر مگر بھرپور جملہ نہ صرف آئینی معاملات کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ملک میں پانی کی تقسیم اور اختیار کے حوالے سے ایک نئی بحث کو بھی جنم دے چکا ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کو شدید پانی کی قلت، زرعی مشکلات اور ڈیموں کی منصفانہ تقسیم جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ایک بار پھر ابھرتا ہے: کیا واقعی پانی صوبوں کا معاملہ ہے؟ یا اس پر وفاق کا بھی کوئی کردار ہونا چاہیے؟

پاکستان کا آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ آبی وسائل کی تقسیم مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کے ذریعے طے پاتی ہے، جس میں تمام صوبے اور وفاق نمائندگی رکھتے ہیں۔ 1991 کے آبی معاہدے کے تحت دریاؤں کا پانی چاروں صوبوں کے درمیان تقسیم کیا گیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس تقسیم میں عدم توازن، بداعتمادی اور سیاسی کشیدگی بڑھتی گئی۔

خرم دستگیر کے بیان کو کچھ حلقے صوبائی خودمختاری کے حق میں دیکھ رہے ہیں، جو کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک مضبوط اصول بن چکا ہے۔ ان کے مطابق جب زمین، زراعت اور آبپاشی کا انتظام صوبوں کے پاس ہے تو پھر پانی بھی انہی کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ پانی ایک قومی اثاثہ ہے اور اس کی منصفانہ تقسیم کے لیے وفاق کا کردار نہایت اہم ہے۔

اس ساری بحث میں چھوٹے صوبوں، خاص طور پر سندھ کی شکایات نمایاں ہیں، جو اکثر پانی کی کمی اور ناجائز کٹوتیوں کا الزام پنجاب پر لگاتے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کا موقف ہے کہ وہ اپنے حصے کا پانی ہی استعمال کر رہا ہے، اور اگر کہیں مسئلہ ہے تو وہ تکنیکی نوعیت کا ہے، نہ کہ جان بوجھ کر پانی روکنے کا۔

خرم دستگیر کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت ایک بار پھر صوبوں کو وسائل پر زیادہ اختیار دینے کی سوچ رکھتی ہے، جو کہ خوش آئند ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس میں تمام صوبوں کو برابر کا اعتماد حاصل ہو۔ لیکن یہ اعتماد صرف بیانات سے نہیں، بلکہ شفاف اقدامات اور مستقل پالیسیوں سے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے۔

آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پانی کی تقسیم کے نظام میں شفافیت، ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور بین الصوبائی رابطے کو فروغ دیا جائے۔ تمام صوبے اپنے حصے کے پانی کی مقدار اور استعمال کے بارے میں مکمل معلومات رکھیں اور وفاق اس کی نگرانی کرے۔

آخرکار، پانی نہ صرف ایک زرعی اور معاشی مسئلہ ہے بلکہ ایک سیاسی اور قومی وحدت کا معاملہ بھی ہے۔ خرم دستگیر کا بیان ایک موقع ہے کہ ہم اس مسئلے پر سنجیدہ مکالمہ شروع کریں — نہ صرف سطحی سیاست کے تناظر میں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں