“پانی پر سیاست یا معاہدے کی پامالی؟ سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر پاکستان کا بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی کا اعلان”

31 اگست 2020 کو اسلام آباد میں شدید مون سون بارشوں کے بعد راول ڈیم کے سپل وے کھولے گئے تو شہری اس قدرتی منظر سے محظوظ ہو رہے تھے، مگر 2025 میں پانی ایک بار پھر خبروں کی زینت ہے — اس بار سرحد پار سیاسی کشیدگی کی صورت میں۔

پاکستان کے وزیر مملکت برائے قانون و انصاف، عقیل ملک، نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بین الاقوامی سطح پر قانونی کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کے مطابق، حکومت تین ممکنہ راستوں پر غور کر رہی ہے:

ورلڈ بینک، جو سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے، کے ذریعے مسئلہ اٹھانا

دی ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (PCA) میں مقدمہ دائر کرنا

بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) سے رجوع کرنا

عقیل ملک نے واضح کیا کہ پاکستان اس معاملے کو محض سفارتی سطح پر نہیں چھوڑے گا بلکہ اسے باقاعدہ قانونی جنگ میں تبدیل کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ “قانونی حکمت عملی پر مشاورت تقریباً مکمل ہو چکی ہے، اور جلد فیصلہ کر لیا جائے گا کہ کون سا فورم سب سے مؤثر ہوگا۔”

انڈیا نے یہ متنازعہ اقدام پاہلگام حملے کے بعد اٹھایا ہے، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ نئی دہلی نے الزام پاکستان پر عائد کیا، اور اسی تناظر میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا — جو 1960 میں دونوں ممالک کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا۔

یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں آبی سلامتی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، اور اس کی معطلی نہ صرف خطے کی سلامتی بلکہ لاکھوں کسانوں اور شہریوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں