“ہم اپنی سرزمین پر ظلم کے خلاف آخری سانس تک ڈٹے رہیں گے۔”

2. فلسطین کی آزادی — ایک ناقابلِ فراموش جدوجہد
فلسطین صرف ایک زمینی تنازع نہیں، بلکہ ایک ایسی قوم کی آواز ہے جو دہائیوں سے ظلم، جبر اور نسل کشی کے باوجود حقِ آزادی کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ فلسطینی صدر کے مشیرِ مذہبی امور نے حالیہ بیان میں ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی قوم کسی قیمت پر اپنی سرزمین، تشخص اور مقدسات سے دستبردار نہیں ہوگی۔
3. مشیرِ مذہبی امور کا دوٹوک مؤقف
مشیرِ مذہبی امور نے اپنے بیان میں کہا:
“فلسطین کی آزادی تک ہماری موجودگی اور مزاحمت جاری رہے گی۔ قابض اسرائیلی طاقتوں کے ظلم، بمباری اور بربریت نے ہمیں کمزور نہیں کیا بلکہ ہمارے حوصلے کو مزید مضبوط کیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر بطور “امانت دار” موجود ہیں اور یہ موجودگی صرف جغرافیائی نہیں بلکہ عقیدے اور ایمان کی نمائندہ ہے۔
4. مسجدِ اقصیٰ اور دینی وابستگی
انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین خصوصاً مسجد اقصیٰ کا مسئلہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا:
“جب تک مسجد اقصیٰ پر قبضہ ہے، یہ صرف فلسطینی نہیں بلکہ پوری اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے دفاع کے لیے کھڑی ہو۔”
5. مسلم اُمہ سے اپیل
مشیرِ مذہبی امور نے عالمِ اسلام سے مؤثر اور عملی کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صرف مذمتی بیانات یا دعائیں کافی نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کو سفارتی، سیاسی، مالی اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔
“اگر مسلم ممالک اتحاد کا مظاہرہ کریں تو فلسطین کا مسئلہ دنوں میں حل ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں خواب غفلت سے جاگنا ہوگا۔”
6. نوجوان نسل کا کردار
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی تحریکِ آزادی کو نئی نسل تک منتقل کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ فلسطینی نوجوان روزانہ جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ یہ تحریک صرف بزرگوں کی نہیں بلکہ ہر نسل کی تحریک ہے۔
7. “ہم یہاں تھے، ہیں اور رہیں گے”
مشیرِ مذہبی امور نے اپنی بات کا اختتام ان الفاظ سے کیا:
“ہم فلسطین میں پیدا ہوئے، یہاں جئیں گے اور آزادی کی صبح دیکھنے تک یہیں ڈٹے رہیں گے۔ ہماری جدوجہد وقتی نہیں بلکہ نظریاتی اور دینی ہے، اور اس کی کامیابی یقینی ہے۔”