“جب 50 مسلم ممالک خاموش ہوں، تو ایران کو روس جانا ہی پڑتا ہے۔”

عالمِ اسلام میں قیادت کا بحران کوئی نئی بات نہیں۔ جب کسی مسلمان ملک پر ظلم ہوتا ہے، تو دنیا کی نظریں ان 50 مسلم ممالک پر اٹھتی ہیں جو اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر صرف بیانات تک محدود رہتے ہیں۔ فلسطین، یمن، شام یا اب غزہ—جہاں کہیں بھی امت پر ظلم ہو، بیشتر مسلم ممالک کی ترجیح صرف خاموشی اور سفارتی زبان میں “تشویش” کا اظہار رہتی ہے۔

ایران، جو ہمیشہ فلسطین اور مزاحمتی بلاک کا حامی رہا ہے، جب تنہا پڑتا ہے اور اسے عالمی طاقتوں کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے، تو اسے دفاعی اور تزویراتی مفادات کے لیے روس جیسے غیر مسلم ممالک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ شراکت کسی دینی ہم آہنگی پر نہیں، بلکہ مجبوری پر مبنی ہوتی ہے۔ جب مسلم دنیا اپنے بھائیوں کے لیے آواز نہیں اٹھاتی، تو کوئی بھی ملک—چاہے وہ ایران ہو یا کوئی اور—اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی طاقت سے اتحاد کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اصل المیہ یہی ہے کہ 50 سے زائد مسلم ممالک کی خاموشی نے ایران کو ایک ایسے ملک کی طرف جھکنے پر مجبور کیا جس کا اسلامی دنیا سے کوئی روحانی تعلق نہیں، بلکہ صرف اسٹریٹیجک مفادات جڑے ہیں۔

اگر مسلم دنیا متحد ہوتی، تو نہ ایران کو روس جانا پڑتا، نہ کسی اور کو مغرب یا مشرق کے در پر جھکنا پڑتا.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں