جب ایک مزدور کی دن رات کی مشقت کے باوجود اس کے بچوں کے اسکول کی فیس، ماں کی دوا اور گھر کا کرایہ نہ نکلے—تو سوال صرف تنخواہ کا نہیں، انصاف کا ہوتا ہے۔

مزدور کی کم از کم اجرت کو 37 ہزار روپے کے بجائے 40 ہزار روپے کرنے کی تجویز صرف ایک عددی تبدیلی نہیں، بلکہ معاشی، سماجی اور اخلاقی اعتبار سے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح، روزمرہ کے اخراجات، اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے 37 ہزار روپے بھی کسی مزدور کے لیے ایک باعزت زندگی گزارنے کے لیے ناکافی ہے، چہ جائیکہ اس سے کم اجرت پر گزارا ممکن ہو۔
پاکستان میں افراطِ زر کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 2024 کے اختتام تک مہنگائی کی اوسط شرح 23% رہی، جس کا اثر براہِ راست عام آدمی، خاص طور پر دیہاڑی دار اور کم آمدنی والے طبقے پر پڑا۔ صرف خوراک، بجلی، گیس اور کرایوں کے اخراجات کو مدنظر رکھا جائے تو ایک پانچ رکنی خاندان کا مہینے کا خرچ تقریباً 50 ہزار سے زیادہ بنتا ہے۔ ایسی صورت میں 40 ہزار روپے کی اجرت بھی ایک اعتدال پسند مطالبہ ہے، نہ کہ کوئی پرتعیش خواہش۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مزدور کی اجرت نہ صرف اس کی ذاتی زندگی بلکہ ملک کی معیشت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر ایک عام مزدور کے پاس بنیادی ضروریات کے لیے بھی پیسہ نہ ہو، تو وہ اپنی اور اپنے بچوں کی تعلیم، صحت، غذا اور دیگر لازمی شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتا، یوں معیشت کا پہیہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک مزدور کو باعزت اجرت ملتی ہے، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتا ہے بلکہ مقامی معیشت میں خرچ کر کے کاروبار کو بھی سہارا دیتا ہے۔
مزید یہ کہ مزدور کی اجرت کو بہتر بنانا صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک اخلاقی اور شرعی ذمہ داری بھی ہے۔ اسلام نے مزدور کو اُس کا حق پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینے کی تلقین کی ہے۔ اگر ہم ایک اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں، تو ہمیں کم از کم اجرت کا تعین کرتے وقت اُس کی ضروریات، وقار اور انسانی حیثیت کو مقدم رکھنا ہوگا۔
لہٰذا، 40 ہزار روپے کی تجویز کوئی جذباتی نعرہ نہیں بلکہ حالاتِ حاضرہ میں مزدور کے تحفظ کا ایک کم از کم معیار ہے، جسے اپنانا نہ صرف حکومت کی معاشی حکمتِ عملی کا امتحان ہے بلکہ معاشرتی انصاف کے قیام کی بنیاد بھی۔