“جب اختیار صرف وردی میں ہو، تو جمہوریت صرف کاغذوں میں بچتی ہے!”

محمد زبیر کا دھماکہ خیز انکشاف: “وزیراعظم بے اختیار، اصل حکمرانی کسی اور کے ہاتھ میں ہے”
سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کا حالیہ بیان پاکستانی سیاست میں ہلچل مچانے کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو “بے اختیار” قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ملکی فیصلے اُن کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ عالمی طاقتیں بھی انہیں سنجیدہ نہیں لیتیں — یہاں تک کہ امریکی صدر بھی براہ راست آرمی چیف سے رابطہ کرتے ہیں۔
“شہباز شریف کے پاس حکومت چلانے یا فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی یہ سمجھ لیا ہے، اسی لیے وہ بھی آرمی چیف سے بات چیت کر رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ امریکہ کا صدر کسی ملک کے وزیراعظم کو چھوڑ کر آرمی چیف سے بات کررہا ہو؟”
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت “فارم 47 کی پیداوار” ہے، اور عوامی مینڈیٹ کی چوری کے ذریعے اقتدار میں لائی گئی ہے۔
پس منظر:
یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب سیاسی فضا پہلے ہی عدم اعتماد، دھاندلی کے الزامات اور سول ملٹری تعلقات کی کشیدگی سے بوجھل ہے۔ محمد زبیر کا شمار ان مسلم لیگی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر کھل کر بات کرتے ہیں، اور ماضی میں بھی عدلیہ و عسکری اداروں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
سیاسی و سفارتی پہلو:
اگرچہ محمد زبیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حوالہ دیا، لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان میں “اصل اختیار” کس کے پاس سمجھتی ہیں۔ اگر عالمی لیڈرز براہ راست فوجی قیادت سے ڈیل کر رہے ہیں تو یہ نہ صرف وزیراعظم کی حیثیت پر سوالیہ نشان ہے بلکہ جمہوری نظام کے توازن پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔
یہ بیان اس بات کی تائید کرتا ہے کہ پاکستان میں de facto طاقت کا مرکز اب بھی فوج ہے، جبکہ منتخب وزیراعظم محض “چہرہ” بن کر رہ گیا ہے۔ اس بات کا عوامی سطح پر اعتراف ہونا — خاص کر ایک سابق گورنر جیسے شخص کے ذریعے — اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور جمہوریت کے زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔
محمد زبیر کا بیان صرف ایک سیاسی تنقید نہیں بلکہ ایک ادارہ جاتی بحران کی عکاسی ہے۔ اگر عوام کا اعتماد، عالمی برادری کا رابطہ، اور فیصلہ سازی سب کچھ وزیراعظم کے بجائے کسی اور کے پاس ہو، تو پھر جمہوریت صرف ایک ظاہری پردہ بن کر رہ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوری ادارے واقعی خودمختار ہیں یا صرف اقتدار کے شو پیس؟