“جب علم کی سرزمین پر سرحدیں کھینچ دی جائیں، تو ہارورڈ جیسی دانشگاہ بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے!”

صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے اچانک فیصلہ کیا ہے کہ:

* **2025-26 کے تعلیمی سال** میں **ہارورڈ یونیورسٹی** سمیت دیگر امریکی اداروں میں
**انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔**
* موجودہ انٹرنیشنل طلبہ بھی **تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گے**۔

یہ حکم خاص طور پر ہارورڈ جیسے ادارے کو شدید متاثر کرے گا، جہاں ہزاروں غیر ملکی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
**یونیورسٹی کا ردعمل:**

ہارورڈ یونیورسٹی نے اس فیصلے کو:

* **غیر آئینی** اور
* **تعلیمی آزادی کے خلاف** قرار دیتے ہوئے
* **وفاقی عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔**
🎓 **طلبہ پر اثرات:**

* ہزاروں طلبہ کا مستقبل غیر یقینی میں پڑ گیا ہے۔
* جنہوں نے ویزا، داخلہ، اور فیس کے لیے سرمایہ لگا رکھا تھا، ان کی تمام محنت ضائع ہو سکتی ہے۔
**امریکہ کی عالمی ساکھ:**

* امریکہ عرصے سے عالمی تعلیمی مرکز رہا ہے، مگر ایسے اقدامات سے
**بین الاقوامی طلبہ دوسرے ممالک (کینیڈا، آسٹریلیا، UK) کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔**
**قانونی جنگ:**

* یہ کیس نہ صرف تعلیمی پالیسی بلکہ **امیگریشن قوانین اور آئینی حدود** کا بھی ایک اہم امتحان بنے گا۔
* عدالت کا فیصلہ مستقبل کی تعلیمی پالیسی کی سمت طے کر سکتا ہے۔
**سیاسی تجزیہ:**

* یہ فیصلہ **ٹرمپ کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں** کا تسلسل ہے۔
* ممکنہ طور پر یہ ان کے انتخابی بیس کو مطمئن کرنے کی کوشش ہے۔
* مگر اس سے **تعلیم دوست حلقوں، تعلیمی اداروں اور کاروباری کمیونٹی** میں بے چینی پھیل سکتی ہے۔
**نتیجہ:**

**علم کی کوئی سرحد نہیں ہونی چاہیے،** لیکن یہ فیصلہ علم کو بھی قومیت کے خول میں بند کرنے کی ایک کوشش دکھائی دیتا ہے۔
ہارورڈ کی مزاحمت صرف ایک ادارے کی نہیں، بلکہ **علم، میرٹ، اور بین الاقوامی طلبہ کے حق کی لڑائی** ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں