جب سرحدیں بولتی ہیں، تو کہانیاں صرف وطن کی نہیں، بے وطنی کی بھی ہوتی ہیں۔

پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین رضاکارانہ یا حکومتی پالیسیوں کے تحت اپنے وطن افغانستان واپس لوٹ چکے ہیں۔ یہ تعداد نہ صرف بڑی ہے بلکہ کئی برسوں کے بعد ایک نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔

پاکستان، جو کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کا میزبان رہا ہے، اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی واپسی کے لیے اکتوبر 2023 میں سخت پالیسی اپنائی تھی، جس کے بعد رجعت کا یہ سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔

ان واپس جانے والوں میں اکثریت ان افغان خاندانوں کی ہے جن کی نسلیں پاکستان میں پروان چڑھیں، جن کے بچوں نے یہیں آنکھ کھولی، اور جن کے خوابوں میں کابل، قندھار یا ہرات صرف ایک کہانی کے نام بن کر رہ گئے تھے۔ ان کے لیے واپسی ایک جذباتی اور عملی چیلنج ہے — نہ صرف معاشی لحاظ سے، بلکہ شناخت کے بحران کے حوالے سے بھی۔

حکومتِ پاکستان کا مؤقف ہے کہ قومی سلامتی اور دستاویزی نظم و ضبط کے لیے یہ اقدام ضروری تھا، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس عمل کو زیادہ شفاف اور مرحلہ وار بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ متاثرہ خاندانوں کی بنیادی ضروریات کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس انسانی سفر کی کہانی، وطن کی طرف واپسی کا نام تو ضرور ہے، مگر یہ صرف سرحد پار کرنے کا معاملہ نہیں۔ یہ شناخت، بقا، امید اور مستقبل کی ایک الجھی ہوئی کہانی ہے، جو ہزاروں خاندانوں کے دلوں میں ابھی مکمل نہیں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں