“جب بچے بھوک سے بلکیں، اور دنیا خاموش رہے — تو انسانیت مر چکی ہوتی ہے!”

غزہ میں انسانی المیہ اپنی بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیلی محاصرے اور سرحدی راستوں کی مسلسل بندش نے پوری آبادی کو قحط، بیماری اور بے بسی کے اندھے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ خوراک، ادویات اور پینے کا پانی غزہ میں داخل نہیں ہو سکا — اور نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اب کچھوے، گھاس، جانوروں کے پتے اور یہاں تک کہ پرندوں کے باقیات تک کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اسپتال بند ہو چکے ہیں، آپریشن تھیٹر خاموش ہو گئے ہیں، دوا کی ایک گولی بھی میسر نہیں۔ بچے بخار میں تڑپتے ہیں اور بزرگ پیاس سے نڈھال ہو کر جان دے رہے ہیں۔ صاف پانی اب ایک خواب بن چکا ہے، اور زندگی صرف “بچ جانے” کے لیے نہیں، اذیت سہنے کے لیے جی جا رہی ہے۔
بے گھر خاندان ملبے تلے یا کھلے آسمان تلے کرب کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ مائیں بچوں کو بھوکا سلاتی ہیں، اور صبح ان کی آنکھیں کبھی نہ کھلنے والے آنسوؤں سے بھیگی ہوتی ہیں۔
یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اور دنیا دیکھ رہی ہے۔
یہ خاموشی، یہ بے حسی — آج کی مہذب دنیا کے چہرے پر ایک سیاہ داغ ہے۔ غزہ کی سسکتی روح ہر زندہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے، بشرطیکہ ہم واقعی زندہ ہوں۔