“جب پناہ گاہ بھی قبر بن جائے تو دنیا کی بےحسی اور واضح نظر آتی ہے!”

غزہ کی سرزمین ایک بار پھر خون سے تر ہو چکی ہے۔ شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں واقع ایک پناہ گزین اسکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 68 معصوم فلسطینی شہید ہو گئے۔ وہ اسکول جو کبھی تعلیم کا مرکز تھا، اور جنگ کے دوران بےگھر لوگوں کے لیے آخری پناہ گاہ، اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے — جہاں بچوں کے بستے، خواتین کی چپلیں اور خون سے بھرے کمبل آج دنیا سے انصاف کی فریاد کر رہے ہیں۔

یہ حملہ اتوار کو اس وقت کیا گیا جب اسکول میں سینکڑوں بے سہارا افراد نے، جو پہلے ہی اپنے گھروں سے نکالے جا چکے تھے، عارضی پناہ لی ہوئی تھی۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے نہ صرف اسکول بلکہ امداد کے انتظار میں کھڑے مظلوم فلسطینیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ حملہ واضح طور پر بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، کیونکہ جنگ زدہ علاقوں میں اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے بین الاقوامی سطح پر ناقابلِ قبول سمجھے جاتے ہیں۔

مزید ظلم یہ کہ اس حملے کے ساتھ ہی اسرائیلی افواج نے شمالی غزہ کے تمام شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دے دیا۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹس اور براہِ راست موبائل پیغامات کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ فوری طور پر خان یونس اور جنوبی غزہ کی طرف منتقل ہو جائیں، جسے اسرائیل نے “انسانی ہمدردی کا زون” قرار دیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہر جگہ حملے ہو رہے ہوں، تو پناہ کہاں لی جائے؟
اقوام متحدہ کے نمائندے، فلسطینی انتظامیہ، اور مقامی صحافی مسلسل یہی کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اب کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی۔ جنوبی غزہ، جہاں لوگوں کو دھکیلا جا رہا ہے، پہلے ہی کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ اسپتال بند ہو رہے ہیں، خوراک ختم ہو چکی ہے، پانی نایاب ہو گیا ہے اور بجلی ایک خواب بن چکی ہے۔

یہ صرف ایک حملہ نہیں — یہ ایک پوری قوم پر چوتھی نسل کے قتلِ عام کی منظم کوشش ہے، جس پر عالمی ضمیر کی خاموشی سب سے بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

دنیا کے بڑے انسانی حقوق کے ادارے، بڑی طاقتیں، اور اقوام متحدہ سب جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے — مگر سب نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ فلسطینی بچوں کی چیخیں، ماؤں کے بین، اور کھنڈرات میں دبے سسکتے لوگ شاید اتنی آواز نہیں رکھتے جتنی کسی طاقتور ریاست کے مفادات۔

یہ وہ وقت ہے جب انسانیت، انصاف، اور عالمی ضمیر کا حقیقی امتحان ہے۔
اور یہ سوال ہر ایک سے ہے:
“کیا آپ بھی خاموش رہیں گے؟”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں