“جب گھر ہی جلنے لگے تو باہر کے دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی — بھارت میں ہندو بنام ہندو کی لڑائی نے نیا رخ اختیار کر لیا!”

بھارت کا سیاسی اور سماجی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ جہاں پہلے صرف اقلیتیں بی جے پی سرکار کی پالیسیوں سے نالاں تھیں، اب خود اکثریتی طبقے میں بھی دراڑیں نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ ہندو بنام ہندو کی کشمکش نے ملک کے اندر ایک نئی سیاسی جنگ کو جنم دے دیا ہے۔ بی جے پی جیسی طاقتور جماعت کے اندرونی اختلافات اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ کئی سینئر رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، کچھ نے استعفے دے دیے، اور کچھ اب کھلے عام قیادت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

یہ صرف پارٹی کی سطح پر انتشار نہیں، بلکہ ایک ایسا سیاسی بھونچال ہے جو بھارت کی جڑوں کو ہلا رہا ہے۔ یو پی، مہاراشٹرا، کرناٹک جیسے بڑے ریاستی یونٹس میں بی جے پی کو اندرونی بغاوتوں کا سامنا ہے۔ ہر روز کوئی نیا چہرہ پارٹی سے ناطہ توڑ رہا ہے، اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عام انتخابات قریب ہیں۔

دوسری جانب مسلمان اقلیت جو پہلے ہی سیاسی طور پر پس منظر میں دھکیلی جا چکی تھی، اب اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کر رہی ہے۔ مذہبی قوانین، لَو جہاد، حجاب، اور سی اے اے جیسے متنازع اقدامات کے خلاف اب عدالتوں میں بھرپور مزاحمت دیکھی جا رہی ہے۔ یہ قانونی جنگ صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ایک ایسے بھارت کی بقاء کی جنگ ہے جو کبھی سیکولر کہلایا کرتا تھا۔

ایسے ہنگامہ خیز ماحول میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ وہ ملک میں “ایک قوم، ایک انتخاب” جیسے نظریات کو فروغ دے رہے ہیں، جسے ناقدین عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی چال قرار دے رہے ہیں۔ جب ملک میں سیاسی بکھراؤ، سماجی تقسیم اور عدالتی جنگیں جاری ہوں، ایسے میں ان نعروں کا مقصد صرف منظرنامہ بدلنا لگتا ہے۔

بھارت آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ جہاں بظاہر طاقتور حکومت بھی اپنے اندر سے ٹوٹتی نظر آ رہی ہے، وہیں عام شہری بے یقینی اور اضطراب کا شکار ہیں۔ جب ہندو خود ہندو کے خلاف کھڑے ہو جائیں، جب اتحادی پارٹیاں خود قیادت پر انگلی اٹھائیں، اور جب اقلیتیں عدالتوں کے سہارے جینے پر مجبور ہوں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ کسی ایک طبقے کا نہیں، بلکہ پورے نظام کا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں