“جب دشمنی سرحدوں سے آگے بڑھ جائے تو مسلمان ممالک کا اتحاد آزمائش میں آ جاتا ہے — سعودی عرب نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی کھلے الفاظ میں مذمت کی۔”

سعودی عرب نے اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے حالیہ فضائی حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے ایک “خطرناک اشتعال انگیزی” قرار دیا ہے جو نہ صرف علاقائی امن بلکہ مسلم دنیا کے اتحاد کے لیے بھی سنگین چیلنج ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایران کی خودمختاری پر اس طرح کے حملے ناقابلِ قبول ہیں اور ان سے مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ اور عدم استحکام کو مزید تقویت ملے گی۔
یہ مذمت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران کی اعلیٰ فوجی اور سفارتی قیادت اسرائیلی حملے کا نشانہ بنی ہے، اور خطے میں جنگ کے بادل مزید گہرے ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب، جو کئی سالوں تک ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھ چکا ہے، اب ایک نازک توازن کے ساتھ امن کی حمایت میں کھڑا نظر آ رہا ہے۔ یہ بیانیہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان ممالک داخلی اختلافات کے باوجود، کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف متفق ہو سکتے ہیں۔
ریاض کا یہ مؤقف عالمی برادری کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ خطے میں طاقت کے توازن کو اسرائیل کے یکطرفہ اقدامات سے نہیں بگڑنے دیا جائے گا۔ سعودی قیادت نے عالمی طاقتوں، خصوصاً اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر صورتِ حال کا نوٹس لیں اور جنگ کے امکانات کو روکنے کے لیے مشترکہ سفارتی کوششیں کریں۔
سعودی عرب کی اس مذمتی پوزیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیجی دنیا اب صرف تماشائی نہیں رہنا چاہتی بلکہ وہ امن و استحکام کے لیے ایک فعال کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے — اور شاید یہی واحد راستہ ہے جو مشرق وسطیٰ کو مکمل تباہی سے بچا سکتا ہے۔