جب عمران خان کا دورہ ‘حمایت’ کہلایا، تو فیلڈ مارشل کا دورہ ‘وفاداری’ کیوں نہیں؟”

عمران خان کا روس جانا ‘سازش’، مگر جرنیل کا امریکہ جانا ‘سفارت کاری’؟
2022 میں جب عمران خان نے یوکرین پر روسی حملے کے دنوں میں ماسکو کا دورہ کیا تو ملک کے اندر اور باہر اس پر شدید تنقید ہوئی۔ اسے بعض حلقوں نے “غیر دانشمندانہ”، بعض نے “غداری”، اور کچھ نے “سازش کا آغاز” قرار دیا۔

لیکن اب 2025 میں، پاکستان کے طاقتور عسکری سربراہ کا امریکہ کا سرکاری دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب:

ایران، اسرائیل کے ساتھ براہِ راست جنگی ماحول میں ہے

امریکہ، اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے

چین و روس، ایران کی پشت پر کھڑے ہیں

پاکستان بریکس میں شمولیت کے امکانات پر غور کر رہا ہے

🔍 تو سوال یہ ہے: یہ دورہ کیا ظاہر کرتا ہے؟
🧭 دوہرے معیار کی حقیقت
🔹عمران خان کا دورہ روس 🔹 فوجی سربراہ کا دورہ امریکہ
منتخب وزیراعظم غیر منتخب عسکری سربراہ
خارجہ پالیسی کا استحقاق پالیسی سے تجاوز؟
خودمختاری کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کا مفاد؟
“غلط وقت پر غلط جگہ” کا الزام “درست وقت پر حکمت عملی”؟

🧨 کیا یہ دورہ پیغام دے رہا ہے؟
امریکہ کو یقین دہانی:

“ہم اب بھی آپ کے کیمپ میں ہیں”

“بریکس یا چین کے قریب جانا وقتی ہے، پالیسی مستقل نہیں”

اندرونی سیاسی توازن:

سول حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر فوج اپنا اسٹریٹجک مقام مزید مستحکم کر رہی ہے

علاقائی فیصلہ سازی میں شرکت:

ممکنہ “مشرق وسطیٰ جنگ” یا “بحیرہ ہند اسٹریٹجی” میں پاکستان کی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش

🧠 کیا قوم ان تضادات کو پہچان رہی ہے؟
جب منتخب وزیراعظم کا ایک فیصلہ پورے سیاسی نظام کو ہلا دیتا ہے، مگر غیر منتخب قوتوں کے اقدامات کو “ریاستی مفاد” کہہ کر جواز دیا جائے، تو یہ نہ صرف جمہوریت بلکہ خارجہ پالیسی کی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں