جب اقتدار اور معیشت آمنے سامنے آ جائیں تو بازار لرز اٹھتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ تجارتی اقدامات اور فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول پر براہ راست تنقید نے نہ صرف مالیاتی پالیسیوں میں دراڑ ڈال دی بلکہ اسٹاک مارکیٹس اور ڈالر کی قدر کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ نے شرح سود میں فوری کمی کے لیے دباؤ ڈالا، مگر پاول نے مہنگائی کے خدشات کے پیشِ نظر محتاط رویہ اپنایا، جس پر ٹرمپ نے انہیں سست اور نقصان دہ فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر ’مسٹر ٹو لیٹ‘ کا لقب دے ڈالا۔ ٹرمپ کے اس سخت لہجے اور اقتصادی سمت پر عدم اتفاق نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متزلزل کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے امریکی اسٹاک انڈیکسز شدید مندی کا شکار ہوئے اور یہاں تک کہ وہ اثاثے بھی متاثر ہوئے جنہیں عام طور پر مالیاتی طوفانوں سے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ سیاست اور معیشت کے اس ٹکراؤ نے یہ ثابت کر دیا کہ جب فیصلے زور زبردستی سے کیے جائیں تو ان کی گونج صرف دارالحکومتوں میں نہیں، بلکہ پوری دنیا کے مالیاتی بازاروں میں سنائی دیتی ہے۔155 ارب ڈالر کا فرق: ٹرمپ کے اخراجات بائیڈن سے کہیں زیادہ