“جب اصولوں کی قیمت اربوں ڈالر تھی، تب ہارورڈ نے آزادیِ رائے کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔

ہارورڈ یونیورسٹی، جو دنیا کی چند ممتاز ترین علمی درسگاہوں میں شمار ہوتی ہے، ایک بار پھر خبروں کی زینت بنی ہے — مگر اس بار وجہ اس کی تعلیمی کامیابیاں یا تحقیق نہیں، بلکہ ایک اصولی موقف ہے جس نے امریکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں، جب متعدد جامعات پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ وفاقی امداد کے بدلے اپنے نظام میں مخصوص تبدیلیاں کریں، ہارورڈ نے ان مطالبات کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔
یہ مطالبات محض مالی یا انتظامی نوعیت کے نہیں تھے، بلکہ ان کا براہِ راست تعلق یونیورسٹی کے بنیادی ڈھانچے اور آزادی سے تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی تھی کہ یونیورسٹی طلباء اور فیکلٹی کے اختیارات میں کمی کرے، خاص طور پر ان شعبوں میں جہاں پالیسی سازی، نصاب، اور سماجی انصاف جیسے موضوعات پر آزادانہ رائے اور مباحثے جاری تھے۔ مگر ہارورڈ نے اس دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ تعلیمی ادارے کی خودمختاری، آزادیِ اظہار، اور طلباء و اساتذہ کے حقوق کسی سیاسی مداخلت کے تابع نہیں ہو سکتے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں وفاقی حکومت نے ہارورڈ کی مالی امداد منجمد کر دی، جو ایک غیرمعمولی اور غیرروایتی قدم تھا۔ لیکن ہارورڈ نے اسے ایک موقع سمجھا، ایک ایسا موقع جہاں اصولوں کی حفاظت کو مالی نقصان پر ترجیح دی گئی۔ انتظامیہ، فیکلٹی، اور طلباء نے مشترکہ طور پر اس موقف کی حمایت کی اور ایک واضح پیغام دیا کہ علم کا راستہ آزاد ہوتا ہے، اور اس پر کسی سیاسی مداخلت کی گنجائش نہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ اس نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا تعلیم صرف حکومت کی پالیسی کے تابع ہونی چاہیے، یا اسے ایک خودمختار، سوچنے والا، آزاد ادارہ رہنا چاہیے؟ ہارورڈ کے اس فیصلے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ جب بات اصولوں اور اقدار کی ہو، تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے بھی ڈٹ کر کھڑا ہونا ممکن ہے — اور ضروری بھی۔