“جب منصوبے بولنے لگیں تو سیاست خاموش ہو جاتی ہے — کیا مریم نواز کے 80 سے زائد عوامی منصوبے واقعی تبدیلی کی نوید ہیں یا صرف سیاسی حکمتِ عملی؟”

مریم نواز شریف، جنہوں نے حال ہی میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سنبھالی ہے، اُن کے اقتدار کی موجودہ مدت کے دوران 80 سے زائد عوامی منصوبوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز رفتار ہے جو کسی بھی نئی حکومت کی کارکردگی کا واضح اشارہ دیتی ہے۔ منصوبوں کی نوعیت ایسی ہے جو براہِ راست عوامی زندگی کو متاثر کرتی ہے — چاہے وہ تعلیم کے شعبے میں اسکول اپگریڈیشن ہو، صحت کے شعبے میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ ریفارمز، خواتین کی خودمختاری کے لیے خصوصی پروگرامز یا نوجوانوں کے لیے ہنر مندی و روزگار اسکیمز۔

دوسری جانب، ناقدین کا کہنا ہے کہ نون لیگ اس تیز رفتاری کے ذریعے آئندہ انتخابات کے لیے فضا ہموار کر رہی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ منصوبے زیادہ تر پریس کانفرنسوں، سوشل میڈیا کی خبروں اور فیتہ کاٹنے کی حد تک محدود رہ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اصل کامیابی تب ہوگی جب یہ منصوبے دیرپا تبدیلی لائیں اور نظام کو بہتر بنائیں۔

لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ عوام کی نبض کیا کہتی ہے؟ لاہور، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ جیسے شہری علاقوں میں کئی شہریوں نے حکومتی اقدامات کو سراہا ہے، خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں کے لیے شروع کیے گئے اقدامات پر مثبت ردعمل ملا ہے۔ دیہی علاقوں میں جہاں بنیادی سہولتوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے، وہاں بھی عوام نے پانی، صحت اور سڑکوں کے منصوبوں میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔

تاہم، عوامی رائے مکمل طور پر یکساں نہیں۔ کچھ علاقوں میں شکایات بھی سننے کو ملتی ہیں کہ منصوبے شروع تو ہو گئے ہیں لیکن ان کی رفتار سست ہے یا نتائج واضح نہیں۔ یعنی تصویر ابھی مکمل نہیں ہوئی — کچھ رنگ بھرتے نظر آ رہے ہیں، کچھ جگہیں ابھی خالی ہیں۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مریم نواز کا یہ پہلا امتحان ہے، اور عوام کی عدالت ہی اصل جج ہے۔ اگر یہ منصوبے صرف وقتی تاثر کے لیے ہیں تو وقت ان کی قلعی کھول دے گا، لیکن اگر ان کا تسلسل برقرار رہا اور عوامی زندگی میں حقیقی بہتری آئی، تو شاید یہ پنجاب کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئے باب کا آغاز ہو۔

کیا یہ منصوبے سیاست سے آگے کا سفر کریں گے؟ یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں عوام خود کریں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں