جب سائنس اخلاقیات کی حدود کو توڑ دیتی ہے، تو وہ علم نہیں بلکہ انسانیت پر سایہ ڈالنے والا ظلم بن جاتی ہے۔

سائنس کی ترقی نے ہماری دنیا کو بے شمار انقلابی تبدیلیوں سے روشناس کرایا ہے۔ بیماریوں کا علاج، زمین کے رازوں کی کھوج، اور زندگی کو بہتر بنانے والے آلات سب سائنس کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب سائنس کے ساتھ اخلاقیات، رحم دلی اور انسانی ضمیر بھی ساتھ ہوں۔ اگر یہ توازن بگڑ جائے، تو سائنس اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر ایک بھیانک ہتھیار بن جاتی ہے۔
یہی سبق ہمیں 1920 کے ایک انتہائی المناک تجربے سے ملتا ہے جسے “لٹل البرٹ” تجربہ کہا جاتا ہے۔ اس تجربے کا مرکزی کردار تھا امریکہ کے مشہور ماہر نفسیات جان بی واٹسن اور ان کی ساتھی روزالی رینر۔ ان کا مقصد تھا یہ ثابت کرنا کہ خوف پیدائشی جذبہ نہیں بلکہ سیکھا جاتا ہے۔ اس تحقیق کے لیے انہوں نے ایک نو ماہ کے معصوم بچے کو بطور subject استعمال کیا، جسے “لٹل البرٹ” کے نام سے جانا گیا۔
البرٹ کو مختلف اشیاء جیسے سفید چوہا، خرگوش، بندر اور خوفناک ماسک دکھائے گئے، مگر وہ ان سے خوفزدہ نہ ہوا۔ اس پر واٹسن نے خوف پیدا کرنے کے لیے ایک تیز دھاتی سلاخ پر ہتھوڑا مار کر خوفناک آواز پیدا کی، جو بچے کے سامنے سفید چوہے کے ساتھ منسلک کی گئی۔ بار بار یہ عمل دہرایا گیا، اور کچھ ہی دنوں میں بچہ صرف سفید چوہا دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا اور رونے لگا۔ یہ خوف دوسرے مشابہ اشیاء پر بھی منتقل ہو گیا، جس سے یہ واضح ہوا کہ خوف واقعی ایک سیکھا ہوا جذبہ ہے۔
لیکن یہ تجربہ ایک اخلاقی المیہ تھا۔ ایک معصوم بچہ، جسے اپنی زبان سے اپنی حالت بیان کرنے کا موقع بھی نہیں ملا، اسے جان بوجھ کر اذیت دی گئی۔ اس کے خوف کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی، نہ ہی اس کے والدین کو سچائی سے آگاہ کیا گیا۔ واٹسن اور رینر نے اس ظلم کو جائز قرار دینے کی کوشش کی، یہ کہتے ہوئے کہ زندگی میں خوف تو آنا ہی ہے۔ یہ دلیل بالکل ویسی ہی تھی جیسے کوئی کہے کہ موت تو آنی ہے، تو کیوں نہ میں ہی مار دوں۔
تقریباً نوے سال بعد 2012 میں اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ “لٹل البرٹ” دراصل ڈگلس میریٹ تھا، جو پیدائشی دماغی بیماری ہائیڈروسفیلس کا شکار تھا اور چھ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ واٹسن کو اس بیماری کا علم تھا مگر اس نے جھوٹ بولا تاکہ تجربے کو سائنسی لحاظ سے قابل قبول بنایا جا سکے۔
یہ ظلم محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک سخت تنبیہ ہے کہ سائنس اور تحقیق کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت ہونا چاہیے، نہ کہ اسے نقصان پہنچانا۔ جب سائنس اخلاقی اصولوں سے آزاد ہو جاتی ہے، تو وہ علم کی روشنی نہیں بلکہ تاریکی کی صورت اختیار کر لیتی ہے.